پاکستان پر افغان سرحد کے پار سے حملہ: امن کیسے قائم ہو گا؟
16 اپریل 2018اتوار پندرہ اپریل کو سرحد پار اس حملے کی وجہ سے پاکستان کی پیرا ملٹری فورس کے دو سپاہی ہلاک جب کہ کئی زخمی ہو گئے تھے۔ یہ حملہ پاکستانی قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں پاک افغان سرحد کے قریب کیا گیا تھا۔ کرم ایجنسی میں ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان فورسز نے یہ حملہ اس وقت کیا، جب پاکستانی سپاہی وہاں باڑ لگانے کے لیے ایک سروے کر رہے تھے۔ بعض اطلاعات کی مطابق ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہوگئی ہے تاہم سرکاری ذرائع سے پیر کی شام تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
پاکستان کے انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق اس حملے کے بعد دونوں ممالک کی افواج نے آپس میں رابطے کر کے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کشیدگی اس وقت تک چلتی رہے گی، جب تک کہ خطے کی ریاستیں اور تمام ’اسٹیک ہولڈرز‘ اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتے۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں کابل اور اسلام آباد کے مابین پہلے ہی سے کئی مسائل پائے جاتے ہیں اور اب سرحد پر باڑ لگانے کے عمل نے ان مسائل کو مزید ہوا دی ہے۔
’پاکستانی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں‘
بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد سے وابستہ بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر آدم سعود کے خیال میں غیر ریاستی عناصر اور کچھ غیر علاقائی عناصر دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کابل حکومت کہتی ہے کہ ہم دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جب کہ اسلام آباد کی شکایت یہ ہے کہ پاکستان دشمن عناصر کو افغانستان میں پناہ دی جا رہی ہے، جو وہاں سے پاکستانی علاقے میں حملے کرتے ہیں۔ تو بنیادی طور پر یہ غیر ریاستی عناصر ہیں، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن کچھ ہاتھ امریکا اور دوسرے ممالک کا بھی ہے۔ امریکا خطے میں بھارت کو زیادہ طاقت ور بنانا چاہتا ہے اور اسے افغانستان میں کوئی کردار سونپنے کا بھی خواہاں ہے۔ جب تک یہ امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہو گی اور غیر ریاستی عناصر کو لگام نہیں ڈالی جائے گی، دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں بہتری اور خطے میں دیرپا امن دونوں مشکل ہوں گے۔‘‘
امریکا اور مغربی دنیا کا پاکستان پر یہ الزام رہا ہے کہ وہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کرتا ہے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے، جہاں سے وہ افغانستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کابل انتظامیہ بھی ایسے الزامات کو کئی بار دوہرا چکی ہے۔ اس کے خیال میں مسئلہ افغانستان میں کرپشن یا بد انتظامی کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ اسلام آباد کی طرف سے افغان طالبان کی حمایت ہے۔ پاکستان میں کئی تجزیہ نگار ان مغربی الزامات کو درست بھی سمجھتے ہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایوب ملک کے خیال میں جب تک پاکستان افغانستان کو اپنا ایک صوبہ سمجھتا رہے گا، تب تک یہ مسائل موجود رہیں گے، ’’یہ الزام نہیں ہے۔ ہمارے اپنے لوگوں نے کئی بار یہ کھل کر کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اسٹریٹیجک گہرائی چاہتے ہیں۔ جب آپ شمالی اتحاد کے ساتھ ایک سلوک اور پختونوں کے ساتھ دوسرا رویہ رکھیں گے اور اس اسٹریٹیجک گہرائی کے فلسفے کو ترک نہیں کریں گے، تو مسائل تو باقی رہیں گے۔ پھر بھارت بھی وہاں کودے گا اور اسلام آباد اور نئی دہلی افغانستان کو اپنی مخاصمت کا گڑھ بنائیں گے۔ تو ایک طرف ہمیں اس پرانی سوچ کو ترک کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف ہمیں بھارت اور ایران سمیت خطے کے تمام ممالک سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی بھی ضرروت ہے۔ صرف اسی صورت میں ہی افغانستان اور خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے۔‘‘
لیکن کچھ سیاسی مبصرین کے خیال میں مسئلہ پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ افغانستان کے حاکم طبقات میں ان افراد کے ساتھ ہے، جو سرحد پر باڑ لگانے کی مخالفت کر رہے ہیں اور اب بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں کو افغانستان ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستا ن اور افغانستان میں کئی پختون قوم پرست حلقے ایسے بھی ہیں، جو ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان سرحد تسلیم ہی نہیں کرتے۔ یہ متنازعہ لائن ایک برطانوی اہلکار ڈیورنڈ نے ایک معاہدے کے بعد کھینچی تھی، جس کے تحت افغانستان اور برطانیہ نے خطے میں اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر کی حد بندی کی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد برطانوی حلقہ اثر والے علاقے پاکستان میں شامل ہو گئے، جس کو آج بھی کئی قوم پرست پختون متنازعہ سمجھتے ہیں۔
اس حوالے سے اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین نے کہا، ’’پاکستان کی تجویز بہتر ہے کہ سرحد پر باڑ لگا دی جائے۔ اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا اور حملوں میں بہت حد تک کمی آ جائے گی۔ آپ دیکھ لیں کہ جب سے بھارت نے باڑ لگائی ہے، حملوں میں کتنی کمی آ گئی ہے۔ صرف پاکستان اور افغانستان میں ہی غیر ریاستی عناصر ان دشوار گزار سرحدی علاقوں کی ہیئت سے فائدہ نہیں اٹھا رہے بلکہ ترکی میں کرد، افریقی ممالک میں بوکو حرام اور شام اور عراق میں داعش نے بھی اس طرح کے سرحدی علاقوں کی ہیئت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تو پاکستان کی تجویز دانش مندانہ ہے لیکن افغانستان میں کچھ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن غیر حقیقی ہے۔ باڑ لگنے سے وہ حقیقی ہو جائے گی۔ اس لیے وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جب تک سرحد پر باڑ نہیں لگے گی اور نگرانی سخت نہیں ہو گی، اس طرح کے حملے ہوتے رہیں گے اور دونوں ممالک میں کشیدگی بھی برقرار رہے گی۔‘‘