پاکستان کا تجارتی خسارہ تیس بلین ڈالر ہوگیا
13 جون 2017یہ خسارہ ماہرین کے خیال میں اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملکی معیشت کی سمت درست نہیں ہے۔ لیکن اسحاق ڈار کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس حکومت کے آنے کے بعد معیشت کو مستحکم کیا، دس برسوں میں پہلی مرتبہ شرح نمو سب سے زیادہ ہوئی، برآمدکنندگان کو ایک سواسی ارب کا مراعاتی پیکیج دیا گیا اور اب حکومت بجٹ کے خسارے کو بھی کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیکن ایک سو اسی ارب کے اس خطیر پیکیج کے باوجود پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے معروف معیشت دان ڈاکڑ شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ صرف معاشی نہیں بلکہ اس کا تعلق ملک کی پولیٹیکل اکانومی سے بھی۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمارے حکمرانوں کو فکر ہی نہیں ہے کہ وہ ملک کی برآمدات کے لیے کچھ کریں۔ حالانکہ ہمیں یورپی یونین سے جی ایس پی پلس بھی دیا گیا۔ تیل کی قیمتیں بھی کم ہوئی۔ اس کے باوجود ہماری برآمدات نہیں بڑھیں۔‘‘
ان وجوہات کے حوالے سے انہوں نے کہا، ’’ہماری برآمدات میں ٹیکسٹائل کو ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت ہے لیکن ہماری کپاس کی فصل کو گزشتہ کچھ برسوں میں شدید دھچکا لگا۔ حکومت نے خاموشی کے ساتھ ، خصوصا پنجاب میں، جی ایم او سیڈز اور طریقہ پیداوار کو کپاس کی کاشت کے لیے شروع کیا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس سے فصلوں پر بلُ ورم کا حملہ نہیں ہوگا لیکن یہ حملہ ہوا ، جس سے کپاس کی فصل کو بہت نقصان ہوا۔ اس کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی صنعت براہ راست متاثر ہوئی اور اس کی برآمدات کم ہوئی۔‘‘
انہوں نے کہا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس سے سبق سیکھ کر جی ایم اوز سیڈز پر پابندی لگاتی۔’’لیکن اب ہویہ رہا ہے کہ ہمارے دوسرے ایکسپورٹ آئٹمز پر بھی خاموشی سے جی ایم اوز کا تجربہ کیا جارہا ہے۔کوشش کی جا رہی ہے کہ چاول، آم اور دوسرے فوڈ آئٹمز پر بھی جی ایم او سیڈز کا تجربہ کیا جائے۔ روس اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک میں جی ایم او فوڈز پر پابندی ہے لیکن ایک امریکی امدادی ادارہ خاموشی سے جی ایم او فوڈز کو پاکستان میں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس صورت میں چاول، جو اہم ایکسپورٹ شے ہے، کو یورپی یونین اور روس کو ایکسپورٹ نہیں کیا جا سکے گا۔ ہم نے حال ہی میں ایس سی او میں شمولیت اختیار کی ہے۔ روس کو فوڈ آئٹمز کی سخت ضرورت ہے لیکن اگر حکومت جی ایم اوز کو متعاراف کرائے گی تو ہم یہ ایکسپورٹ نہیں کر سکیں گے۔ روس نے پہلے ہی شکایت کی ہے کہ ہمارے آم میں جی ایم اوز کی علامات ملی ہیں۔ ویسے آم کو جی ایم سیڈز کے ذریعے نہیں اگایا جا سکتا تو ہم اس کےpulpکا پاوڈر درآمد کر رہے ہیں۔ جی ایم او فوڈز سے نہ صرف ہماری زراعت متاثر ہو گی بلکہ اس سے صنعت، خوراک اور ہماری صحت بھی متاثر ہوگی۔‘‘
گرتی ہوئی ایکسپورٹ اور تجارتی خسارے پر رائے دیتے ہوئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پہلے ہماری ایکسپورٹ پچیس بلین ڈالرز تھی، جو اب بیس بلین ڈالرز کے قریب ہوگئی ہے۔ ایکسپورٹ گرنے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی اس شعبہ پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ تیس سے چالیس فیصد لاگت صرف انرجی پر آجاتی ہے اور حکومت سستی بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ تو ہماری پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بھارت، بنگلہ دیش اور ویت نام سے عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پا رہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’ہمارے پاس ابھی تک سستی انرجی کے ذرائع نہیں ہیں۔ صرف پانچ فیصد تک بجلی کوئلے سے پیدا کی جائے گی۔ حکومت نے تیل کی جگہ ایل این جی متعاراف کرائی اور اس کی قیمت تیل سے کوئی خاص کم نہیں ہے۔ حکومت نئے انرجی پروجیکٹس کے دعویٰ کر رہی ہے لیکن اس کے ٹیرف اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں بھی ایکسپورٹرز کو سستی بجلی نہیں ملے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل میں بھی ہماری برآمدت کے بڑھنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔‘‘
صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی باتیں بھی ملکی معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ پانامہ کیس اور سیاسی عدم استحکا م کے حوالے سے معروف صنعت کار احمد چنائے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ملک میں سیاسی عدم استحکام کی خبریں گرم ہیں جس کی وجہ سے اسٹاک ایکسچینج گرے ہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ پانامہ کیس کا کیا ہوگا۔ کون ہمارے حکمراں ہوں گے؟ معاشی پالیسیاں ویسی ہی رہیں گی یا تبدیل ہوجائیں گی؟ ہمارے غیر ملکی پارٹنرز بھی اس صورتِ حا ل میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔‘‘
تجارتی خسارے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ’’ہم اٹھارہ بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ کر رہے ہیں جب کہ ہماری امپورٹ اڑتالیس بلین ڈالرز کی ہے۔ یہ اس لیے بڑھ رہا ہے کہ ہم صنعت پر بالکل توجہ نہیں دے رہے۔ صنعتی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ امپورٹیڈ چیزیں خرید رہے ہیں کیونکہ وہ سستی ہیں۔‘‘‘