پاکستان کو جانے والے دریاؤں کا پانی روک دیں گے، بھارت
22 فروری 2019بھارت نے کہا ہے کہ وہ بھارتی زیر انتظام کشمیر سے پاکستانی سر زمین کی طرف بہنے والے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو جانے والا پانی روک دے گا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بھارت کا استدلال ہے کہ یہ قدم بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والےایک خودکش کار بم حملے کی سزا کے طور پر اٹھایا جا رہا ہے۔ 14 فروری کو ہونے والے اس حملے کے نتیجے میں 40 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت اس حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتا ہے جبکہ پاکستان اس کی تردید کرتا ہے۔
بھارت کے واٹر ریسورس منسٹر نیتن گڈکاری کے مطابق پاکستان جانے والے تین مختلف دریاؤں سے اپنے حصے کے غیر استعمال شدہ پانی کو روک کر اسے مختلف بھارتی ریاستوں کو فراہم کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 20 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک پاکستان کو جس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے، اس بات کا خدشہ ہے کہ بھارت 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کی طرف سے کرائے جانے والے اس معاہدے کے تحت بھارت سے پاکستان کو جانے والے تین دیگر دریاؤں کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا اور بھارت اس کو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔ 1947ء میں تقسیم برصغیر کے بعد سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں تاہم اس معاہدے پر ابھی تک عملدرآمد ہو رہا ہے۔
نیتن گڈکاری نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ’’ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے حصے کا پانی جو پہلے پاکستان کی طرف بہہ رہا ہے اسے روکا جائے۔ ہم مشرقی دریاؤں سے پانی کو روک کر اسے جموں و کشمیر اور پنجاب میں اپنے لوگوں کو مہیا کریں گے۔‘‘
پلوامہ حملے کے بعد سے بھارتی حکومت پر عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو ختم کر کے پاکستان کی طرف بہنے والے تمام دریاؤں کا پانی روک لے۔ بھارتی حکومت پاکستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ وہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سرگرم علیحدگی پسندوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرتی ہے تاہم پاکستان ان الزامات کو رد کرتا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیری علیحدگی پسندوں کی محض اخلاقی اور سفارتی سطح پر حمایت کرتا ہے۔ پاکستان بھارت پر الزام عائد کرتا ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں تعینات اس کی سات لاکھ کے قریب فوج وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہی ہے۔
ا ب ا / ع ح ( ایسوسی ایٹڈ پریس)