پاکستان: کورونا وائرس کے خوف تلے گندم کی کٹائی کا کام جاری
16 اپریل 2020ملک کے مختلف علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق کئی جگہوں پر کسانوں کو کٹائی کے کام کے ليے مزدوروں کی کمی کا سامنا ہے۔ لوگ کورونا وائرس کے خوف اور ٹرانسپورٹ کے ذرائع کی عدم دستيابی کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں میں جانے سے گریزاں ہیں۔ چند کاشت کاروں کو گلہ ہے کہ وبا کے تناظر ميں جاری لاک ڈاون کے باعث وہ اپنی مشینری اور گاڑیوں کی بر وقت مرمت نہیں کرا سکے۔ کئی علاقوں میں ماہ رمضان سے پہلے گندم کی کٹائی کا کام مکمل کرنے کے ليے مشینری کرائے پر دینے والوں کے ہاں رش لگ گیا ہے۔
اوکاڑہ کے نواحی قصبے پتوکی کے ایک گاؤں ہلہ سے تعلق رکھنے والے ایک کاشت کار محمد حسین نے بتایا کہ اس مرتبہ میڈیا پر وبا کی کوریج کی وجہ سے لوگ کافی محتاط ہیں اور شہر سے مشینری لے کر آنے والے عملے سے فاصلہ رکھ رہے ہیں۔ ان کے بقول ہارویسٹر کے ذریعے گندم کی کٹائی سے آسانی تو رہتی ہے لیکن اس سے مویشیوں کے کھانے کے ليے 'توڑی‘ نہیں ملتی اور اسی ليے بہت سے مقامی لوگ مزدوروں کی مدد سے گندم کی کٹائی کراتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں مسلسل سردی اور بارشوں کی وجہ سے گندم کی فصل خراب بھی ہو رہی ہے۔
پاکستان میں کاشت کاروں کے حقوق کے ليے کام کرنے والی ایک بڑی تنظیم کسان بورڈ پاکستان کے صدر چوہدری نثار احمد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ اس وقت صوبہ سندھ میں گندم کی کٹائی کا کام مکمل ہونے کے قریب ہے۔ جنوبی پنجاب میں يہ کام اس وقت عروج پر ہے لیکن وسطی پنجاب میں کٹائی آئندہ چند روز میں شروع ہونے والی ہے۔ شمالی پنجاب میں کٹائی کا کام شروع ہونے میں ابھی کچھ اور وقت لگے گا۔انہوں نے کہا، ''اس سال نہری علاقوں میں ژالہ باری اور بارشوں کی وجہ سے بعض اضلاح میں گندم کی فصل کو نقصان پہنچا لیکن دوسری طرف بارانی علاقوں میں گندم کی فصل بہت بہتر رہی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سال ملک میں گندم کی مجموعی پیداوار بہتر رہے گی اور حکومت کی طرف سے متعین کیا جانے والا گندم کا پیداواری ٹارگٹ پورا ہو گا۔‘‘
چوہدری نثار نے بتايا کہ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کے خریداری مراکز پر جراثیم کش اسپرے کرایا جائے۔ ''وہاں پر سماجی فاصلے کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کسانوں کے ليے بیٹھنے کا مناسب انتظام کیا جائے اور وہاں موجود سرکاری اسٹالز پر کسانوں کے رش کو محدود رکھنے کا انتظام کیا جائے۔ وہاں کام کرنے والے اہلکاروں کے ليے ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال بھی یقینی بنایا جائے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں کورونا وائرس کی وبا شہروں سے نکل کر دیہاتوں میں نہ آ جائے۔‘‘
کسان بورڈ کے سربراہ کے مطابق گجرات اور کھاریاں کے بعض دیہاتوں میں کسانوں کو کورونا وائرس کے مسئلے کا سامنا ہے۔ ان کے بقول ایسا اس وجہ سے ہے کہ ان علاقوں میں حال ہی میں کووڈ انيس سے زيادہ متاثرہ ملکوں سے لوگ آئے ہیں۔
پنجاب میں محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر انفارمیشن محمد رفیق اختر نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ محکمہ زراعت کا فیلڈ اسٹاف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے کورونا وائرس سے بچاؤکے ليے جاری کی جانے والی ہدایات پر مبنی لٹریچر کے ساتھ گندم کے کاشت کاروں کو آگاہی فراہم کر رہا ہے۔ ان کے بقول اس سب کے علاوہ وہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ایس ایم ایس کے ذریعے بھی کاشتکاروں کو رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ''حال ہی میں میں نے گندم کی کٹائی سے فارغ ہو جانے والے فیصل آباد کے کسانوں کی ایک ویڈیو بھی دیکھی ہے، جس میں وہ اچھی فصل کی خوشی میں چہرے پر ماسک پہن کر لڈی ڈال رہے ہیں۔‘‘
اس سال پاکستان میں ستائیس ملین ٹن گندم کی پیداوار کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ پنجاب میں ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت کی گئی اور فصل سے ایک کروڑ نوے لاکھ ٹن گندم پیدا ہونے کی توقع ہے۔ پنجاب حکومت نے چودہ سو روپے فی من کے حساب سے پینتالیس لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ضلع جھنگ سے تعلق رکھنے والے گندم کے ایک کاشت کار عبدالجبار نے بتایا کہ اس سال توقع ہے کہ گندم کا ریٹ مارکیٹ میں بھی اچھا ہی رہے گا۔ ''اس سال حکومت نے کہا ہے کہ کسانوں سے گندم وہی لوگ خرید سکیں گے، جنہیں حکومت نے رجسٹر کر رکھا ہے لیکن کسانوں کی ایک بڑی تعداد سرکاری ضابطوں کی کارروائیوں سے گھبراتی ہے ۔ اسی طرح کسانوں نے آڑھتیوں سے کھاد اور زرعی ادویات کے ليے ادھار لے رکھا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کسانوں کی بڑی تعداد اپنی گندم کی فصل روایتی آڑھتیوں کو ہی بیچیں گے۔‘‘