1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی طرف سے ماحول دوست توانائی کا عزم

عبدالستار، اسلام آباد
23 اپریل 2021

پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو یقین دلایا ہے کہ وہ 2030 تک اپنی ساٹھ فیصد توانائی ماحول دوست ذرائع سے پیدا کرے گا۔ لیکن ماہرین کے نزدیک حکومت کے لیے اس قسم کے وعدہ کرنا بہت آسان ہے لیکن ان پر عمل بہت مشکل ہوگا۔

https://p.dw.com/p/3sUhj
Pakistan | Billion tree tsunami
تصویر: Reuters/Malik Amin Asmal

واشنگٹن میں منعقدہ ایک عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کی طرف سے یہ یقین دہانی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے کرائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تیل اور ڈیزل پر چلنے والی 30 فیصد گاڑیوں کو بھی بجلی اور بیٹری پر منتقل کر دے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وعدے کے صرف ایک دن بعد جمعرات کو وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے ایک نئے تھرمل پاور پلانٹ کا اعلان کیا، جو وفاق، پنجاب حکومت اور نجی سرماکاروں کے تعاون سے بنایا جائے گا۔

Weltspiegel 23.04.2021 | USA Virtueller Klimagipfel Joe Biden
تصویر: BRENDAN SMIALOWSKI/AFP via Getty Images

پاکستان میں توانائی کے لیے زیادہ تر انحصار آبی ذرائع کےعلاوہ تیل کی درآمد اور قدرتی گیس پر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں چین کے تعاون سے کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹ اور ایٹمی بجلی گھروں کو بھی فروغ دیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق ہوا اور سورج سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے ماحولیاتی اعتبار سے سب سے زیادہ بہتر ہیں لیکن پاکستان میں وِنڈ سے صرف تین اعشاریہ انسٹھ فیصد اور شمسی توانائی سے صرف ایک اعشاریہ سولہ فیصد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

غیر حقیقت پسندانہ اہداف

ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی حکومت کو ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں زیادہ سرگرم سمجھا جاتا ہے۔ مبصرین کی نظر میں دوسری وزارتوں کے برعکس ماحولیات کی وزارت میں ملک امین اسلم کی کارکردگی نسبتا بہتر رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ نو برس میں ماحول دوست ذرائع سے 60 فیصد توانائی حاصل کرنے کا ہدف غیر حقیقت پسندانہ ہے۔

Polen COP24 | Malik Aslam Amin
تصویر: Saadullah

اسلام آباد میں قائم نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عارف محمود کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں۔

’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ یہ کیسے کریں گے کیونکہ  اگر آپ بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرنے کے لیے شمسی توانائی کی طرف جاتے ہیں تو اس کا انفراسٹرکچر ملک میں موجود نہیں ہے۔ اور اگر آپ اس کی درآمد کرتے ہیں تو یہ بجلی بہت مہنگی پڑے گی۔ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے بہت سارے مسائل ہیں۔ صوبوں میں آپس میں اختلافات ہیں۔ خشک موسم میں پانی بہت کم ہو جاتا ہے اور ہر سال کم ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی ممکنہ طور پہ شدید قلت ہوگی۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ پانی کے پروجیکٹس بناتے ہیں تو اس میں وقت بہت لگتا ہے اور جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے جبکہ تھرمل انرجی کے پروجیکٹ میں وقت نہیں لگتا اور وہ قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق، ''ان تمام عوامل کی روشنی میں میرے خیال میں یہ ممکن نہیں کے آپ اتنی آسانی سے ساٹھ فی صد کی شرح پر پہنچ جائیں کیونکہ اس میں بہت سارے تیکنیکی مسائل ہیں۔‘‘

خطیر سرمائے کا سوال

ماضی میں وزارت ماحولیات سے وابستہ رہنے والی غزالہ رضا کا خیال ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنا بڑا ہدف حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "حکومت نے حال ہی میں سی پیک کے تحت تھرمل انرجی پیدا کرنے کے لیے پلانٹ لگائے ہیں۔ان پلانٹس کی مدت کئی سالوں پر محیط ہوتی ہے۔ بعض تیس سے پینتیس سال کے لیے بھی ہوتے ہیں اور خطیر سرمایہ لگتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نو سال میں ان سارے پروجیکٹس کو ختم کیسے کرسکتی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اتنے کم وقت میں یہ ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

Pakistan Windenergie
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/Xinhua/A. Kama

سب کچھ ممکن ہے

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی ماہر عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ پاکستان یقینا متبادل انرجی کی طرف جا سکتا ہے اور ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ توانائی ماحول دوست طریقوں سے حاصل کرسکتا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم نے متبادل توانائی کے تجربات سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں کیے ہیں اور یہ کامیاب رہے۔ بلوچستان میں بھی بڑے پیمانے پر لوگ اپنی ضرورت کے لیے شمسی توانائی استعمال کر رہے ہیں۔ شمسی توانائی کو پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکومتی تعاون بہت ضروری ہے کیونکہ ملک میں تیل کے کاروبار سے وابستہ لابی بہت طاقتور ہے۔‘‘

Pakistan Smog in Lahore
تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press Agency/imago images

طاقتورلابیاں

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین مانتے ہیں کہ طاقتور لابیاں بڑی رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں تیل کی انڈسٹری بہت مضبوط ہے۔ پھر ہمیں جو پاور پلانٹس لگانے ہوتے ہیں اس کے لیے ہمیں پیسہ چاہیے ہوتا ہے۔ وہ پیسہ کسی ملک یا کسی ادارے سے آرہا ہوتا ہے اور بہت سارے معاملات میں وہ ملک یہ طے کرتا ہے کہ پاور پروجیکٹ کس نوعیت کا ہوگا۔ جیسے چین نے ہم سے معاہدہ کرتے وقت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگائے۔ اگر ہم چین سے قرضہ نہیں لے رہے ہوتے تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمیں کوئلے سے بجلی نہیں چاہیے بلکہ صاف طریقے سے چاہیے لیکن کیونکہ چین قرضہ دے رہا تھا اس لیے ہمیں ان کی ماننی پڑی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ طاقتور لوگوں کا کاروبار بھی بجلی پیدا کرنے کے ایسے طریقوں سے جڑا ہوا ہے جس سے ماحولیات کا جنازہ نکل رہا ہے۔

Pakistan Solarbetriebenes Krankenhaus in Tharparkar
تصویر: DW/I. Aftab

اہداف حاصل کریں گے

تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس ٹارگٹ کو حاصل کرلے گی۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ حکومت ماحولیات کے حوالے سے بہت کام کر رہی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کچھ منصوبے بند کیے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اُن سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جو متبادل تونائی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ دس ارب درختوں کا بھی پروگرام بنایا ہے اور ہم الیکٹرک کاریں  بھی لا رہے ہیں۔ اسی طرح شمسی توانائی، ونڈ انرجی اور دوسرے متبادل ذرائع سے بھی بجلی پیدا کرنے کی حاصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ تو ہمیں امید ہے کہ  ہم اس ٹارگٹ کو حاصل کرلیں گے۔‘‘