پاکستان کی نئی حکومت: سب سے بڑا چیلنج، علیل اقتصادیات
1 جون 2013پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہو رہے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ملک انتہائی سنگین اقتصادی بحران کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ ایسے امکانات سامنے آئے ہیں ہیں کہ اگلے ہفتے کے دوران قائم ہونے والی نئی مرکزی حکومت کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے امدادی پیکج حاصل کرنے کا کڑوہ گھونٹ پینا پڑے گا اور پہلے سے شدید مہنگائی تلے دبے پاکستانی عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا ہو جائے گا۔
گزشتہ ماہ کے وسط کے دوران پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہوتے 6.4 بلین ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے تھے۔ ایک سال قبل غیر ملکی زرمبادلہ کی سطح 14بلین ڈالر سے زائد تھی۔ پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ سے صرف ڈیڑھ ماہ کی امپورٹ ممکن ہیں جبکہ امپورٹ کی کریڈٹ لائن کو بحال رکھنے کے لیے عالمی سطح پر تین ماہ کا زرمبادلہ ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
اگر نئی حکومت عالمی مالیاتی ادارے سے مالیاتی پیکج حاصل کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو اس کے پاکستانی عوام پر انتہائی سنگین اثرات مرتب ہوں گے اور نواز شریف کی حکومت کو نامقبولیت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ عام لوگوں میں روپے کی قدر کا خوف پیدا ہو چکا ہے اور لوگ اپنے روپے سے ڈالر خریدنے کی کوششوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹوں سے سرمائے کو نکالنے کا عمل شروع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستانی اقتصادی ڈھانچہ منہدم ہونے کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگلے چھ سے نو ماہ پاکستانی اقتصادیات کے لیے انتہائی سنگین اور اہم خیال کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت کے سربراہ نواز شریف نے پاکستان کی علیل اقتصادیات کو بحال کرنے کو خصوصی فوقیت دے رکھی ہے۔ بظاہر مستقبل قریب میں بننے والی نواز شریف حکومت عالمی مالیاتی ادارے سے امدادی پیکج کو وصول کرنے پر سردست ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے کیونکہ نواز شریف کے زری مشیران کو معلوم ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے امدادی پیکج کڑی شرائط پر حاصل ہو گا۔
نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی اور اقتصادی مشیر سرتاج عزیز کا خیال ہے کہ اگر نواز شریف کی حکومت ابتدائی چھ ماہ نکال جاتی ہے تو پھر وہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے بیل آؤٹ پیکج وصول کرنے کے لیے رجوع نہیں کرے گی۔ سرتاج عزیز نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے بیل آؤٹ پیکج وصول کرنے کے امکان کو ظاہر کیا ہے۔ سرتاج عزیز کے خیال میں اگر نواز شریف قریبی اتحادی ملکوں اور خاص طور پر سعودی عرب سے مالی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے اقتصادی ترقی کے رُکے پہیے میں حرکت پیدا ہونے کا امکان ہے۔
ایک اور اہم اقتصادی ماہر اشفاق حسن خان کا خیال ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے سے بیل آؤٹ پیکج کا حصول نوشتہٴ دیوار ہے۔ اشفاق حسن کے مطابق اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر کے حجم کو بڑا کرنے کے لیے مقامی کمرشل بینکوں سے 2.3 بلین ڈالر حاصل کیے ہیں اور دوسری جانب اسٹیٹ بینک کی کوششیں پاکستانی روپے کی قدر کو سنبھالا دینے میں تاحال ناکام دکھائی دیتی ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اگلے برس اپنے قرضوں کی قسط بھی واپس کرنا ہے اور اس کی وجہ سے بھی زرمبادلہ کا حجم مزید کم ہو جائے گا اور رواں برس کے اختتام تک پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے 2.5 ارب ڈالر کے مساوی رقم کی ضرورت ہو گی۔
پاکستانی عوام میں اقتصادی بےچینی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ کمرشل بینک بھی اپنے صارفین کو ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ڈالر بینکوں سے نکال لیں کیونکہ اور کچھ عرصے کے بعد ان کی دستیابی بھی ایک مشکل عمل ہو گا۔ اسلام آباد کی فارن ایکسچینج کمپنیاں بھی ڈالر کی کمیابی کا رونا رو رہی ہیں۔ یہ اقتصادی بےچینی خاص طور پر اسلام آباد میں دیکھی گئی ہے، جب کہ دو بڑے شہروں لاہور اور کراچی میں ایسی صورت حال نہیں پائی جا رہی۔ اشفاق حسن خان کے مطابق یہ چند دنوں کی بات ہے اور اسلام آباد والی بےچینی دوسرے بڑے شہروں تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان سن 1988 سے اب تک آٹھ مرتبہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے مالی پروگراموں کے تحت خطیر رقوم حاصل کر چکا ہے۔ ان کے بدلے میں اقتصادی ڈھانچے میں کئی تبدیلیاں بھی لائی گئیں لیکن معیشت کو لاحق دائمی مسائل کا تدارک نہیں کیا جا سکا۔ اسلام آباد میں قائم میکرو اکنامک انسائٹ لمیٹڈ کے سربراہ ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ پاکستانی اقتصادیات کو بھنور سے سعودی یا چینی قرضے نہیں نکال سکتے اور نئی حکومت کا عالمی مالیاتی ادارے سے فوری طور پر رجوع کرنا ازحد ضروری ہے۔
(ah/ab(AP