’پاکستان کے لیے اپنے مقاصد آگے بڑھانے کا ایک موقع‘
29 نومبر 2011روئٹرز کے اس تجزیے کے مطابق پاکستان میں، جہاں پہلے ہی امریکہ مخالف جذبات کا زور ہے، اِس واقعے پر عوام میں زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے، جسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اور اسلام آباد حکومت بھی اپنے حلیف امریکہ کی جانب سخت موقف اختیار کریں گے۔
واشنگٹن میں قائم نیشل ڈیفنس یونیورسٹی کے کالج آف انٹرنیشنل افیئرز سے وابستہ حسن عباس کہتے ہیں، ’’اِس واقعے پر پاکستانی فوج واضح طور پر برہم ہے اور درمیانے اور جونیئر رینکس کے فوجی افسران کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ہے کہ فوج اس واقعے پر رد عمل ظاہر کرے‘‘۔
اس دباؤ کا اندازہ پیر کو فوج کے ترجمان کی اس دھمکی سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں جاری امن کوششوں میں اپنا تعاون بڑی حد تک کم کر دے گا، جس کے نتیجے میں صدر براک اوباما کی افغانستان جنگ کو انجام تک پہنچانے کی کوششیں بلاشبہ پیچیدگی کا شکار ہو سکتی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان اپنی دو سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں کے اس حملے کے بدلے میں، جس میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک اور تیرہ زخمی ہوئے، امریکہ سے مراعات طلب کرے گا۔ پاکستان افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے تصفیے میں زیادہ بھرپور شرکت کے لیے اصرار کرے گا تاکہ کابل میں مستقبل کی کسی حکومت میں اُس کے حلیف عناصر کو زیادہ مضبوط کردار مل سکے۔
امریکہ میں قائم انٹیلیجنس مشاورتی ادارے STRATFOR میں مشرقِ وُسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے متعلق شعبے کے نائب صدر کامران بخاری کہتے ہیں کہ ’فوج کے نقطہء نظر کے مطابق معمول سے ہَٹ کر جارحانہ پیشقدمی کی ایک کوشش کرنے کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے۔ اب پاکستانی اپنی شرطیں سامنے رکھیں گے۔ وہ کہیں گے کہ سرحد کے اُس پار تم جو کچھ بھی کر رہے ہو، اُس میں ہمیں زیادہ کردار دو اور یہ کہ وہاں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکلنے کے لیے تمہیں ہماری ضرورت ہے‘۔
واشنگٹن پر روایتی طور پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے پاکستان کے لیے دباؤ ڈالنے اور اپنی شرائط منوانے کی گنجائش کم ہی ہے کیونکہ وہ مدتوں سے امریکہ کی مالی اور فوجی امداد کا محتاج چلا آ رہا ہے۔ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل اور تجزیہ کار شوکت قادر کے مطابق ’پاکستان ایسا کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، جس کے نتیجے میں امریکہ کے ساتھ براہِ راست ٹکراؤ یا جنگ کی صورت پیدا ہو جائے‘۔ تاہم اس بار پاکستان بجا طور پر محسوس کر رہا ہے کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور یوں اُس کے امریکہ پر دباؤ ڈالنے کے متعدد امکانات موجود ہیں۔
پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ فوجی اور سفارتی تعلقات پر نظر ثانی کرے گا، اُس نے بلوچستان میں شمسی ایئر بیس کے خالی کیے جانے کا بھی مطالبہ کیا ہے اور نیٹو کو سپلائی بھی روکی جا چکی ہے۔ ستمبر 2010ء میں ایسے ہی ایک واقعے کے بعد دَس روز تک سپلائی رکی رہی تھی۔
رپورٹ: روئٹرز / امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق