1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کون ہیں؟

23 اکتوبر 2024

ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ چیف جسٹس کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کے منتخب ارکان پر مشتمل ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4m7KO
Supreme Court of Pakistan in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو ملک کا نیا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا ہے۔ ان کی تقرری پر حکومتی حلقے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ ناقدین اس کو غلط طریقے سے کیا گیا ایک اچھا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے آفریدی قبیلے سے تعلق رکھنے والے انسٹھ سالہ یحییٰ آفریدی ملک کے تیسویں چیف جسٹس ہوں گے۔  وہ بطور چیف جسٹس نامزدگی کے وقت سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر تھے۔ وہ چیف جسٹس قاضی فائز کے ساتھ اُن چار ججوں میں شامل تھے، جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔

ان کی تقرری اس لحاظ سے بھی قابل زکر ہے کہ یہ حکومت کی جانب سے اس ہفتے کے آغاز پر منظور کی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم کے صرف دو دن بعد عمل میں لائی گئی ہے۔

اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر واقع سپریم کورٹ کی عمارت
اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر واقع سپریم کورٹ کی عمارتتصویر: Anjum Naveed/AP Photo//picture alliance

یحییٰ آفریدی کے کیرئیر پر ایک نظر

یحییٰ آفریدی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے ۔نہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچیسن کالج سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا جبکہ انہوں نے قانون کی تعلیم برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔

جسٹس آفریدی نے 1990ء میں ہائیکورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پشاور میں پریکٹس شروع کی جبکہ 2004ء میں سپریم کورٹ میں وکالت کا آغاز کیا۔ بھرپور انتظامی تجربہ رکھنے والے جسٹس آفریدی خیبر پختونخوا کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے ۔

2010ء میں پشاور ہائیکورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات ہونے سے پہلے وہ 'آفریدی، شاہ اور من اللہ‘ لا فرم کا حصہ تھے۔ یہ وہی لا فرم  ہے جس کے دیگر دو شراکت دار وکلا منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ بھی جسٹس آفریدی کی طرح سپریم کورٹ کے جج ہیں۔

2012ء میں جسٹس آفریدی کو پشاور ہائیکورٹ کا مستقل جج تعینات کیا گیا اور پھر چار سال بعد وہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔ چھ برس کا عرصہ گزارنے کے بعد  2018 میں انہیں ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔

پارلیمانی کمیٹی کی پہلی تعیناتی

 ملکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چیف جسٹس کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کے منتخب ارکان پر مشتمل ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے  کے ساتھ کیا ہے۔ یہ فیصلہ منگل کی رات  کو ہونے والے اس ان کیمرہ اجلاس میں کیا  گیا، جس کے شرکا کو اجلاس کی کارروائی سے متعلق معلومات باہر شئیر نہ کرنے کا کہا گیا تھا۔

اس کمیٹی کے اجلاس کا پاکستان تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تھا ان کے بقول عوامی مینڈیٹ نہ رکھنے والی نامکمل پارلیمنٹ ایسی کمیٹی بنانے کی قانون سازی کی مجاز نہیں تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قانون سازی کے لیے پی ٹی آئی نے مشاورت میں بھرپور حصہ لیا تھا اور چیف جسٹس کے انتخاب کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کو اپنے ممبران کے نام بھی دئیے تھے۔

نئے چیف جسٹس کی تقرری حال ہی میں منظور کی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد کی گئی ہے
نئے چیف جسٹس کی تقرری حال ہی میں منظور کی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد کی گئی ہےتصویر: Raja I. Bahader/Pacific Press/IMAGO

جسٹس یحییٰ آفریدی کو دو سینئر ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر  پر سبقت دے کر ماضی میں رائج سینارٹی کے اصول کے بر خلاف چیف جسٹس بنایا گیا ہے ۔ ان کے خلاف آنے والا واحد ووٹ جمیعت علماء اسلام (فضل الرحمٰان)  کا تھا۔ جے یو آئی کے نمائندے کامران مرتضی نے جسٹس منصور علی شاہ کے حق میں ووٹ دیا۔ جبکہ پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر، بیرسٹر علی ظفر اور سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

اچھی شہرت کے حامل جج

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چئیرمین عابد ساقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی ایک قابل اور دیانت دار جج ہیں ان کی شخصیت متنازعہ نہیں ہے اور ان کے بقول انہیں نہیں لگتا کہ ان کا انتخاب کوئی غیر منصفانہ پیش رفت ہے۔ یاد رہے وکلا کے ایک بڑے دھڑے کے سربرا حامد خان اس فیصلے کو مسترد کرکے اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل بابر سہیل ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حامد خان پی ٹی آئی کے وائس چئیرمین بھی ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے کے بعض پہلو پی ٹی آئی کے حق میں نہ ہوں لیکن اس فیصلے کے جو پہلو پورے ملک کے حق میں ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئیے۔‘‘ ان کے خیال میں اگر اس فیصلے سے ملک قومی استحکام کی طرف بڑھتا ہے تو یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔

سپریم کورٹ کا جج بننے سے قبل جسٹس یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ میں بطور چیف جسٹس چھ سال کا عرصہ قائم کیا
سپریم کورٹ کا جج بننے سے قبل جسٹس یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ میں بطور چیف جسٹس چھ سال کا عرصہ قائم کیاتصویر: Faridullah Khan/DW

انہوں نے مزید کہا،  ''اب وہ وقت نہیں رہا جب اپنی تعیناتیاں ادارے خود ہی اپنی مرضی سے کرتے رہیں۔‘‘ ان کے بقول اس فیصلے کے خلاف کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔

سیاسی امور کے تجزیہ کار ارشاد احمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی  کی قابلیت اور دیانت میں کوئی شک نہیں لیکن انہیں جس طریقے سے لایا گیا ہے وہ درست نہیں، ''اگر اس فیصلے کے خلاف تحریک نہ بھی چلی تو پھر بھی اس فیصلے سے ملک میں بے اطمینانی اور بے چینی بڑھے گی  جو کہ ملک کے لئے درست نہیں ہے۔‘‘

ارشاد احمد عارف نے کہا،  '' پہلے بڑی مشکل سے جدوجہد کرکے سینیارٹی کا اصول منوایا گیا تھا لیکن اب بغیر کسی ٹھوس وجہ کے صرف سیاسی اور شخصی مفادات کی خاطر اس اصول کو ہٹا دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس پیشرفت کے بعد اب خدشہ ہے کہ سینئر ججوں کو  چیف جسٹس کے عہدے کے حصول کے لیے حکومتی خوشنودی کی ترغیب ملے گی۔