پاکستان کےدیہی علاقوں میں توانائی کے متبادل ذرائع کی فراہمی
5 مئی 2011پروفیسر ڈاکٹر نوربرٹ پنچ نے سورج کی توانائی سے کام کرنے والا کھانا پکانے کا ایک آلہ تیار کیا ہے۔ یہ سولر ککر ایک بڑے پیالے کی شکل کا ہے جس میں شیشہ لگا ہوا ہے ۔ سورج کی روشنی شیشے پر پڑ کر منعکس ہوتی ہے اور شیشے کے اوپر لگے ہوئے ایک برتن کے نیچے مرتکزہو جاتی ہے۔ یہ برتن پانی کی بڑی مقدار کو سورج کی تپش سے بیس منٹ میں ابالنے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آفت زدہ علاقوں یا بجلی سے محروم دیہاتوں میں یہ سولر ککر بہت مفید خیال کیا جاتا ہے۔ جرمن ایمبسی اسلام آباد کے تعاون سے پروفیسر نوربرٹ پنچ نے اوکاڑہ کی ایک گراونڈ میں اس سولر ککر سے چاول، کیک اور دیگر کھانے بنانے کے کامیاب تجربے کیے ہیں۔
پروفیسر نوبرٹ پنچ کے مطابق توانائی کی کمی اور اس کے بہت زیادہ مہنگا ہونے کی وجہ سے اب پاکستانی لوگوں کو بدلتے حالات کے مطابق توانائی کے حصول کے متبادل طریقوں کو اختیار کرنا ہوگا۔ انہوں نے سولر اوون ، سولر پینل اور ونڈ مل بھی تیار کی ہے ۔ آج کل وہ ان اشیا کو نوجوان طالب علموں میں متعارف کرانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں کئی نجی تعلیمی اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب کے کئی علاقوں میں جرمن اداروں کے تعاون سے شمسی توانائی سے چلنے والے بجلی کے ٹیوب ویل بھی تجرباتی طور پر لگائے گئے ہیں۔ ضلع اوکاڑہ کے ہی ایک نوجوان محمد شکیل عامر نے دو سالہ تجربات کے بعد پتنگ کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا عمل کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔
اسلام آباد میں جرمن ایمبسی کے تعاون سے محمد شکیل اب اس عمل میں فنی اعتبار سے مزید بہتریاں لانے کی تگ ودو کر رہے ہیں۔ محمد شکیل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انہوں نے آٹھ فٹ لمبی اور آٹھ فٹ چوڑی ایک پتنگ تیار کی ہے ۔ یہ پتنگ جب ہوا میں اڑتی ہے تو دھاگے کے ساتھ بانس پر لگے ہوئے ایک پہییے کو گھماتی ہے، جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ان کے بقول پتنگ کے شرنک ہونے سے بھی دھاگہ لوز ہوتا ہے اور وزن نیچے گرتا ہے۔ اس طرح سے پیدا ہونے والا کرنٹ بیٹریوں میں اسٹور کر لیا جاتا ہے۔
ان کے بقول اس پتنگ سے پیدا ہونے والی بجلی ایک انرجی سیور اور ایک پنکھا چلانے کے لیے کافی ہے۔ محمد شکیل پچھلے ہفتے لاہور کے ایک نواحی علاقے میں پتنگ سے بجلی پیدا کر کے ڈیزرٹ کولر چلانے کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں۔ وہ اپنی اس ایجاد کو مزید بہتر بنا کر عوامی سطح پر عام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے اس سے پہلے پاکستان میں شمسی توانائی کے ذریعے چلنے والا بجلی کا گیزر بھی تیار کیا جا چکا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان تمام آلات کی تیاری کے لیے مقامی مارکیٹ میں موجود سستا میٹیریل استعمال کیا گیا ہے۔
ڈوئچے ویلے سےگفتگو کرتے ہوئے ایک ماہر غیور عبید نے بتایا کہ ترقی پذیر ملکوں کو آنے والے دنوں میں توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف توجہ دینا ہوگی کیونکہ اب اس کے بغیر گزارا نہیں ہوگا۔ ان کے بقول مہنگائی کے اس زمانے میں توانائی کے مہنگے آلات باہر سے در آمد کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عاطف بلوچ