پاکستان: ہیپاٹائٹس سے روزانہ تقریباﹰ چار سو ہلاکتیں
28 جولائی 2016آج جمعرات اٹھائیس جولائی کو منائے جانے والے ہیپاٹائٹس کے خلاف عالمی دن کے حوالے سے یہ بات تشویش ناک ہے کہ پاکستان میں اس مرض کی مختلف قسموں کے ہاتھوں روزانہ قریب چار سو افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا بھر میں آج اٹھائیس جولائی کو ہیپاٹائٹس کا عالمی دن منانے کا مقصد عام لوگوں میں اس مرض کے بارے میں پائی جانے والی آگہی میں اضافہ ہے۔ ہیپاٹائٹس عرف عام میں جگر کی سوزش کو کہتے ہیں۔ جگر کی اس خرابی کی وجہ مختلف ادویات، موٹاپا، شوگر کی بیماری اور ہیپاٹائٹس کے جراثیم بھی بنتے ہیں۔ کئی ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباﹰ بیس ملین ہے۔
اس بارے میں اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے بیرونی مریضوں کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مطاہر شاہ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی کئی مختلف اقسام ہیں، جن میں سے ہیپاٹائٹس اے، بی، سی اور ای زیادہ معروف ہیں۔ ان میں سے بھی ہیپاٹائٹس اے، ای اور بی، سی کا آپس میں کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے کیونکہ اس مرض کے وائرس اے اور ای آلودہ پانی اور غذا جبکہ بی اور سی انتقال خون کے ذریعے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر مطاہر شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی صورت حال کافی خطرناک ہے۔ اس بیماری کی بی اور سی اقسام کا تناسب پاکستان میں دس فیصد ہے، جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا میں ہیپاٹائٹس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں میں سے زیادہ تر کی وجہ اس بیماری کی بی اور سی اقسام ہوتی ہیں۔ یہ مرض جگر کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور جگر کے سرطان کی وجہ بھی بنتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ صرف علاج سے ہیپاٹائٹس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس سے بچاؤ کے لیے عوام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے حکومت اور تمام این جی اوز کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
اسلام آباد میں ایک نجی کلینک چلانے والے ماہر امرض جگر ڈاکٹر عمران حیدر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ ہیپاٹائٹس بی اور سی ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیپاٹائٹس سی جبکہ دو اعشاریہ آٹھ فیصد ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہے۔ ان کے بقول یہ بیماری پچیس سے لے کر پچاس برس تک کی عمر کے اٹھارہ فیصد شہریوں میں پائی جاتی ہے، جو انتہائی پریشان کن بات ہے۔
ڈاکٹرعمران حیدر نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی بیماری خون یا اس کی مصنوعات کے تبادلے، استعمال شدہ سرنجوں، آلودہ پانی اور کھانے پینے کی بازاری اشیاء سے پھیلتی ہے اور پاکستانی معاشرے میں بہت سے لوگ احتیاط نہیں کرتے، ''گھر میں ایک ہی ریزر سے کئی لوگ شیو کر لیتے ہیں، ایک ہی تولیے، مسواک یا برش کا استعمال بھی ہوتا ہے اور اسی بےاحتیاطی سے ہیپاٹائٹس پھیلتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اکثر افراد اس بات سے ہی لاعلم ہوتے ہیں کہ انہیں ہیپاٹائٹس ہے۔ پھر اگر انہیں علم ہو بھی جائے تو علاج اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ یا تو مریض سرے سے علاج کرواتا ہی نہیں یا پھر علاج نامکمل چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی صورتحال کے حوالے سے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے حال ہی میں میڈیا کو بتایا تھا کہ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں حکومتی کوششوں کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو ان کے علاج کے لیے مہینے بھر کی جو دوائی پہلے بتیس ہزار روپے میں ملتی تھی، وہ اب انہیں پندرہ سو روپے ماہانہ میں مل رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صحت مند انتقال خون کے لیے بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کو زیادہ مؤثر بنانے کی خاطر نئی قانون سازی بھی کی جا رہی ہے۔ سلمان رفیق کے بقول اس سال دسمبر میں پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹوٹ بھی کام کرنا شروع کر دے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں چالیس کروڑ افراد کو ہیپاٹائٹس بی اور سی کا مرض لاحق ہے۔ یہ تعداد ایڈز کا سبب بننے والے ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ انسانوں کی عالمی تعداد سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔