1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان:صحت کے مسائل بحران کی صورت اختیار کرنے کے دہانے پر؟

16 ستمبر 2022

سیلاب کے بعد پاکستان میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ پر ہجوم امدادی کیمپوں میں رہنے والے بے گھر لوگوں کا علاج کرنے کے لیے ڈاکٹروں کے پاس ادویات موجود نہیں۔

https://p.dw.com/p/4GxgC
Pakistan Khyber Pakhtunkhw Flutkatastrophe
تصویر: Hussain Ali/AA/picture alliance

گل مکائی پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک دیہات کی رہائشی ہیں۔ ان کا گھرپاکستان میں آنے والے حالیہ سیلابوں میں ڈوب گیا۔ اگرچہ اب سیلابی پانی کم ہو گیا ہے لیکن سیلاب کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں صحت سے متعلق حالات غیر تسلی بخش ہیں۔ سیلاب کے کھڑے پانی میں خطرناک جراثیم آسانی سے پھیل سکتے ہیں۔ پاکستان کے اس دور افتادہ علاقے میں ادویات اور صاف پانی کی بھی شدید قلت ہے۔

مکائی اپنے گھر سے 3 میل دور سیلاب متاثرین کے لیے بنائی گئی ایک پناہ گاہ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ اپنے شیر خوار بیٹے کو ہاتھ سے بنے پنکھے سے ہوا جھلتی رہتی ہیں کیونکہ پاکستان میں ابھی موسم گرما ختم نہیں ہوا اور گرمی کی شدت برقرا ہے۔ ان کا بیٹا جلد کے ایک شدید مرض میں مبتلا ہے۔ مکائی کے دیگر دو بچے بھی جلد کی اسی بیماری سے متاثر ہوئے ہیں۔

مکائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے جسم پر خارشوں کے باعث ہونے والے زخموں کو دیکھیں۔ وہ ناخنوں سے انہیں کھرچتا ہے اور روتا ہے۔ اس خیمے میں گرمی کے باعث وہ مزید تکلیف میں مبتلا ہے۔‘‘

پاکستان میں سیلاب سے بچوں کی تعلیم بھی شدید متاثر

اس علاقے میں اس وقت درجہ حرارت 60 فیصد نمی کے تناسب کے ساتھ 30 ڈگری سیلسیس ہے۔

سیلاب کی تباہ کاریاں، عوام بے سروسامانی کی حالت میں

ضلع سوات کا زیادہ تر حصہ پہاڑوں سے گھری دریائی وادیوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کا یہ حسین شمالی علاقہ اس سال آنے والے شدید سیلابی ریلو‍ں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ سیلاب نے اس علاقے کے انفرااسٹرکچر اور رہائشی علاقوں کو تباہ کر دیا ہے۔

مقامی حکام کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر ایک اسکول میں بے گھر افراد کے لیے خیمے لگائے گئے ہیں۔ مکائی نے بتایا کہ اس کیمپ میں پہنچنے کے بعد انہیں جلد کی خارش کے خاتمے کی دوائی ملی لیکن مزید طبی امداد نہیں دی گئی۔

ان امدادی کیمپوں میں صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث نقل مکانی کرنے والے افراد میں ہیضہ اور پیچش جیسی پیٹ کی کئی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔

ایک طبی این جی او، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) سے تعلق رکھنے والے نعمان خان نے سوات کے دارالحکومت سیدو شریف کے ایک امدادی کیمپ میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کیمپس میں لوگ پینے اور دیگر ضروریات کے لیے سیلاب کا کھڑا ہوا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں جس کے باعث مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

اس علاقے میں مچھروں سے پھیلنے والے ڈینگی بخار کے کئی کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ خان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں مچھر دانیوں اور مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین ماہواری  سے متعلق حفظان صحت کے اصول بھی برقرار رکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ ایام حیض میں استعمال ہونے والی اشیا کیمپ میں دستیاب نہیں۔

انہوں نے کہا، ''صرف ایک دن میں خواتین میں انفیکشن کے آٹھ کیسز آئے ہیں اور ان کی وجہ ماہانہ مخصوص ایام کے دوران ایک ہی کپڑے کے ٹکڑے کو بار بار استعمال کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان خواتین کو درد سے بچاؤ والی ادویات تک رسائی بھی حاصل نہیں۔

دوائیوں کی قلت

امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مزید ادویات کی فوری ضرورت ہے۔ فی الحال فارمیسیوں میں درد کش ادویات، اینٹی بائیوٹکس، جلدی امراض اور امراض نسواں کے مسائل، ذیابیطس اور آنکھوں کے انفیکشن سے نمٹنے کے لیے ادویات موجود نہیں ہیں۔

پاکستانی سماجی بہبود کے خیراتی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے ایک امدادی کارکن، اسد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سوات میں ان کے بہت سے جاننے والے انسولین اور دیگر ادویات حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دیگر حصوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے پر مجبور ہیں۔

خان نے مزید کہا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم نے ایک مقامی ہسپتال کا دورہ کیا اور ضروری ادویات اور دیگر سامان کی فراہمی کا وعدہ کیا۔

ادویہ ساز کمپنیاں تاہم حکومت کو دوائیوں کی قلت کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ ان کے مطابق بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پیداواری لاگت کو بڑھا دیا ہے جس کے باعث مینوفیکچرنگ معطل کر دی گئی ہے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حامد رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب کسی تیار شدہ پراڈکٹ پر ہماری کمپنیوں کی  لاگت طے شدہ قیمت سے زیادہ آتی ہے تو ہم اس کی تیاری کیسے جاری رکھیں؟ یہ ایک آسان سا کاروباری اصول ہے۔‘‘

پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ خواتین سب سے زیادہ مشکل میں

انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت مہنگائی کے تناسب سے دوائیو‍ں کی قیمتیں بڑھاتی ہے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

سوات کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر محمد سلیم خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر طبی سامان جلد فراہم نہ کیا گیا تو سیلاب کے باعث جاری صحت کا بحران قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ''ہم ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ ہمیں مزید دوائیوں کی ضرورت ہے۔‘‘

جمیلہ اچکزئی (ر ب ⁄ ش ر)