پاکستانی آرمی چیف باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع
19 اگست 2019پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے پیر انیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق عمران خان کے دفتر کی طرف سے اس بارے میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں یہ تین سالہ توسیع دو ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین پائی جانے والی اس شدید کشیدگی کے پس منظر میں کی گئی ہے، جو اس مہینے نئی دہلی حکومت کے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے سے متعلق فیصلے کے بعد سے اور بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
وزیر اعظم کے دفتر کے جاری کردہ بیان میں کیا گیا، ''یہ فیصلہ علاقائی سلامتی سے متعلق موجودہ ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کے موجودہ عہدے کی مدت معمول کے مطابق اس سال نومبر میں پوری ہونا تھی اور کئی سفارتی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کافی عرصہ پہلے ہی سے یہ پیش گوئی بھی کر رکھی تھی کہ پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف کے طور پر جنرل باجوہ کے عہدے کی مدت میں توسیع کر دی جائے گی۔
پاکستان اور بھارت کے مابین اس سال فروری میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر کیے جانے والے ایک خود کش کار بم حملے میں کم از کم 40 بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین تعلقات بہت ہی کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کی فضائی افواج نے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں بھی کی تھیں۔ اس دوران پاکستانی فضائیہ نے ایک بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا تھا اور اس کے پائلٹ کو اپنے قبضے میں بھی لے لیا تھا۔ بعد میں یہ بھارتی پائلٹ پاکستان نے اپنی طرف سے خیر سگالی کے جذبے اور امن کی خواہش کے اظہار کے طور پر واپس بھارت کے حوالے کر دیا تھا۔
پھر اس ماہ کے اوائل میں مودی حکومت نے جموں کشمیر کی منقسم ریاست کے اپنے زیر انتظام حصے کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا تھا، جس کی اسلام آباد حکومت کی طرف سے بھرپور مذمت کی گئی تھی۔ اسی فیصلے کے خلاف چودہ اگست کو پاکستان کے یوم آزادی کے ایک روز بعد پندرہ اگست کو جب بھارت نے اپنا یوم آزادی منایا تھا، تو پاکستان میں اس روز کشمیر کے مسئلے کے تناظر میں ہی یوم سیاہ منایا گیا تھا۔
فوجی سربراہ کے طور پر جنرل باجوہ کا دور ملازمت
جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف کے طور پر عہدے کی مدت کی دوران ہی پاکستان میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے فوج پر یہ الزام بھی لگائے تھے کہ فوج ہی مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اقتدار میں لائی تھی، جن کو اسلام آباد میں سربراہ حکومت بنے اب ایک سال ہو گیا ہے۔
جنرل باجوہ کی اسی مدت ملازمت اور عمران خان حکومت کے اقتدار کے اسی گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں بہت سے میڈیا اداروں کو یہ شکایت بھی رہی ہے کہ ملک میں میڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار رائے کو بھی بری طرح محدود کیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی فوج، جو ایک آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں تقریباﹰ نصف عرصے تک اقتدار پر قابض رہی ہے، ان الزامات کو مسلسل مسترد کرتی آئی ہے کہ وہ سیاست میں کوئی مداخلت کر رہی ہے یا اس نے میڈیا کی آزادیوں کو محدود کرنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔
م م / ا ا / روئٹرز