پاکستانی بالر محمد عامر پر لگی پابندی ختم
29 جنوری 2015آئی سی سی کی طرف سے یہ بیان جمعرات کو جاری کیا گیا ہے۔ پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ اور بالر محمد آصف کے ساتھ ساتھ بائیس سالہ فاسٹ بالر محمد عامر پر بھی سن 2010ء میں انگلینڈ کے دورے کے دوران اور خصوصاً لارڈز میں کھیلے جانے والے چوتھے ٹیسٹ میچ کے دوران سپاٹ فکسنگ کے الزام میں پانچ سال تک کرکٹ مقابلوں میں حصہ لینے کی پابندی عاید کر دی گئی تھی۔
محمد عامر پر عاید کردہ اس پابندی کی مدت اس سال دو ستمبر کو ختم ہونا تھی تاہم آئی سی سی نے اپنے اینٹی کرپشن (اے سی ایس یُو) حکام کے ساتھ تعاون کرنے پر محمد عامر کو ابھی سے تمام ڈومیسٹک مقابلوں میں شرکت کی اجازت دے دی ہے۔
پابندی کے خاتمے کی خبر نشر ہونے کے بعد نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں محمد عامر نے کہا کہ ’یہ اُن کی زندگی کی سب سے بڑی خبر ہے‘۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ اُن کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا اور اُنہیں یقین ہے کہ یہ مشکل دور اب ختم ہو چکا ہے۔ محمد عامر نے کہا کہ وہ بے چینی کے ساتھ اُس وقت کے منتظر ہیں، جب وہ پھر سے بین الاقوامی میدانوں میں کھیل سکیں گے۔ عامر نے کہا کہ وہ بالنگ کرنا نہیں بھولے لیکن اب خود کو منوانے کے لیے اور بھی زیادہ کوشش کریں گے اور خود کو ’ایک بہتر کھلاڑی اور ایک بہتر انسان‘ ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔
سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر نے برطانیہ میں قید کی بھی سزا بھگتی۔ آئی سی سی کی جانب سے ان تینوں پر کم از کم پانچ سال تک کے لیے ہر طرح کے کرکٹ مقابلوں میں حصہ لینے کی پابندی عاید کر دی گئی تھی جبکہ سلمان بٹ کو دو سال کی معطل سزائے قید کا بھی حکم سنایا گیا تھا۔
آئی سی سی کی گورننگ باڈی کی جانب سے جمعرات کی صبح جاری کردہ اس بیان میں کہا گیا ہے:’’اے سی ایس یُو کے چیئرمین سر رَونی فلینیگن نے آئی سی سی اور پاکستانی کرکٹ بورڈ کی طرف سے پیشگی منظوری کے ساتھ فوری طور پر محمد عامر کو پاکستانی کرکٹ بورڈ کے تحت ہونے والے ملکی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے:’’اے سی ایس یُو کے چیئرمین اس امر پر مطمئن ہیں کہ ممد عامر نے اے سی ایس یُو کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کرتے ہوئے اُن معاملات میں اپنے کردار کے حوالے سے تمام تر تفصیلات بتا دی تھیں، جن کی وجہ سے اُنہیں کھیلنے کے لیے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی محمد عامر نے اپنا قصور مانا تھا، شرمندگی اور پچھتاوے کا اظہار کیا تھا، معاملات کی تحقیقات کرنے والے یونٹ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور اے سی ایس یُو کے تربیتی سیشنز کے لیے اپنے پیغامات ریکارڈ کروائے تھے۔‘‘
بائیں ہاتھ سے بالنگ کروانے والے فاسٹ بالر عامر نے جب پاکستان کی قومی ٹیم کے لیے کھیلنا شروع کیا تھا تو اُنہیں ٹیم اور ملک کے لیے ایک بڑا اثاثہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ 2010ء میں لارڈز میں کھیلے جانے والے متنازعہ ٹیسٹ میچ کے دوران ہی وہ اٹھارہ سال کی عمر میں پچاس وکٹیں لینے والے کم عمر ترین کھلاڑی بن گئے تھے۔
اینٹی کرپشن کے ایک نظر ثانی شُدہ ضابطے کے تحت کوئی بھی کھلاڑی اپنے اوپر عاید کردہ پابندی کے خلاف آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ اے سی ایس یُو سے اپیل کر سکتا ہے اور اپنی پابندی کی مقررہ مدت کے خاتمے سے پہلے ہی دوبارہ کھیل کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت مانگ سکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ پی سی بی نے محمد عامر کی اپیل میں اُس کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا تھا تاہم سلمان بٹ اور محمد آصف کے لیے کسی بھی طرح کی رعایت طلب کرنے میں تعاون کو خارج از امکان قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان کے ایک اور کرکٹر اور لیگ اسپنر دانش کنیریا پر سپاٹ فکسنگ کے الزام میں 2012ء سے کرکٹ مقابلوں میں شرکت کی تاحیات پابندی چلی آ رہی ہے۔