پاکستانی سیاست دان اور ان کی روایتی دروغ گوئی
18 جون 2023'یہ عوام دوست بجٹ ہے‘
'آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہوا تو ہمارے پاس پلان بی بھی ہے‘
'نواز شریف اگلے ماہ کی فلاں تاریخ کو پاکستان واپس آ جائیں گے‘
'پاکستان کو ایسا ملک بنائیں گے کہ لوگ باہر ممالک سے یہاں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے‘
'میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ‘
'ملک تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے‘
'ملک دیوالیہ ہونے والا ہے‘
'عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کے لیے مجھے اپنے کپڑے تک بیچنے پڑے تو بیچ دوں گا‘
یہ سب جملے آپ کی سماعتوں اور بصارتوں کو مانوس لگے ہوں گے کیونکہ ان میں سے اکثر جملے سن سن کر بچے جوان، اور جوان بوڑھے ہو گئے ہیں مگر پاکستانی سیاست دانوں کے روایتی جھوٹ ختم ہونے کو نہیں آ رہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سیاست دانوں کے جھوٹ پر ان کی حکومتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ان پر مقدمے بن جاتے ہیں مگر پاکستان میں یوں لگتا ہے کہ سیاست دروغ گوئی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
حال ہی میں امور خزانہ کی وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگرآئی ایم ایف کے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہو پاتا تو ان کی وزارت کے پاس پلان بی بھی موجود ہے۔ کچھ روز بعد جب ان سے سوال ہوا کہ پلان بی کیا ہے؟ کیونکہ سمجھوتہ تو طے پاتا نظر نہیں آرہا۔ تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی پلان بی ہے ہی نہیں۔ وہ تو صرف سوالات سے جان چھڑانے کے لیے میڈیا کو دیا گیا ایک لالی پوپ تھا۔ اب جب آئی ایم ایف بھی پوچھ رہا ہے کہ پلان بی کیا ہے؟ تو پاکستان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
بالکل اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے نہایت سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی صاحب نے میاں نواز شریف کے پاکستان آنے کی تاریخ دے دی اور جب وہ تاریخ گرز گئی اور میاں صاحب وطن نہ لوٹے توشاہد خاقان صاحب نے نہایت سہولت سے اس کو اپنا سیاسی بیان قرار دے کر جان چھڑائی۔
اگر ہم پی ٹی آئی کے قائد عمران خان صاحب کی بات کریں تو انہوں نے حال ہی میں گرفتار ہونے والی تحریک انصاف کی خواتین سے جیل میں پولیس افسران کی طرف سے زیادتی کا بیان دے دیا۔ بعد میں ان کے اس بیان کو انہی خواتین نے جھٹلایا، مگر خان صاحب نے سیاسی بیان میں اس بات کو بھی فراموش کر دیا کی رہائی کے بعد ان خواتین کو معاشرہ کیسے اور کتنا قبول کرے گا۔
معیشت پر اثرات
ان بےباک سیاسی غلط بیانیوں کے معاشرے، بین الاقوامی تعلقات، معاشی معاملات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ماہر معاشیات سید مزمل اسلم سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیاست میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک جو حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں جبکہ دوسرے اپوزیشن پارٹیوں کے حامی، ''جو لوگ حکومت میں ہوتے ہیں ان کا ایک ایک لفظ بین الاقوامی تعلقات، معیشت اور لوگوں پر اثر ڈالتا ہے۔ حال ہی میں اگر وزیر مملکت عائشہ بخش کے پلان بی والے بیان کو دیکھیں تو یہ بیان عالمی سطح پر یہ تاثر دیتا ہے کہ پاکستان حکومت بہت غیر سنجیدہ اور کنفیوز ہے، یقینا اس کا منفی اثر آئی ایم ایف کی ڈیل پر بھی پڑے گا۔ جہاں تک بات ہے اپوزیشن پارٹیز کے بولے گے جھوٹوں کی تو وہ ان کی ذاتی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے اور لوگ ان پر یقین کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
سیاسی بیانیہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما فرحت اللہ بابر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں جھوٹ تو برسوں سے چلا آ رہا ہے مگر ٹیکنالوجی کے اس نئے دور میں اس میں شدت آ گئی ہے اور سیاسی بیانیہ بنانے میں مصروف سیاستدان یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ جھوٹ کی کونسی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ ان کے بقول ''سیاست دانوں کے بولے گئے جھوٹ معاشرے اور ریاست کی سمت متعین کرتے ہیں اور ملک اسی سمت ترقی کرتا ہے مگر افسوس کہ ان جھوٹے بیانیوں کی وجہ سے پاکستان غلط سمت آگے بڑھ رہا ہے۔‘‘
اس روش کے سدباب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کہ سیاست کے کچھ اصول بنانے چاہییں اور اس سیاسی کشیدگی کے ماحول کو بھی کم کرنا چاہیے، ''اس کے علاوہ ریاست کے دوسرے ادارے جو ایسی جھوٹی خبریں پھیلانے کا سبب بنتے ہیں ان کا بھی سدباب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
معاشرے پر اثرات
فیمینسٹ اور انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو سے اس موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اشرافیہ، چاہے ان کا تعلق سیاست سے ہو یا کسی بھی اور ادارے سے ان کے بولے گئے جھوٹ عام آدمی کی زندگی پر منفی اثر ڈالتے ہیں اور ایک عام آدمی ان پر اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ احساس بیگانگی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''عام آدمی جب بہت عرصے تک ڈھٹائی سے بولے گئے جھوٹ سنتا ہے تو اس میں غصہ اور بے چینی بڑھتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ ڈپریشن میں چلا جاتا اور معاشرے سے علم بغاوت بلند کرتا ہے جیسے کہ ہم نے بلوچستان میں اسٹوڈنٹس تحریکیں دیکھی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر باری مزید کہتی ہیں کہ یہ موجودہ اشرافیہ ہی ہے، جو ملک کو اس نہج تک لے آئی ہے اور ان سے بہتری کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ان کے بقول یہ کبھی بھی غیر طبقاتی نظام کو فروغ نہیں دیں گے، ''جیسے ہر بجٹ میں امیروں کو ٹیکس سے چھوٹ دے کر غریبوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور غریب کو مطمئن رکھنے کے لیے ان کے پاس صرف جھوٹ ہی رہ جاتے ہیں۔ جب تک محنت کش طبقہ اکھٹا ہو کر اس نظام کو بدلنے کے لیے تبدیلی کی تحریک نہیں چلاتا اس کو جھوٹ کے چورن پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔‘‘
سیاسی مبصر کی آراء
پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں صاحب اقتدار اخلاقیات، جمہوری روایات اور مضبوط کردار جیسی صفات سے نا آشنا ہیں، ''مغربی معاشرے پاکستان کو معیوب نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ قوم خود کو مسلمان کہتی ہے اور ہر بات میں غلط بیانی کرتے ہے۔‘‘
رسول بخش رئیس کے بقول پاکستان میں ان کا کوئی احتساب کرنے والا نہیں۔ میڈیا بھی ان کی اصلاح نہیں کرتا بلکہ تعریف کرتا ہے کہ کس جماعت نے کتنا مضبوط سیاسی بیانیہ بنایا ہے، ''اس پہلو پر کوئی بات نہیں کرتا کہ یہ بیانیہ کتنا سچ اور کتنا جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگر عوام کی بات کریں تو ان کی سیاسی وابستگیاں بہت گہری ہیں اور شعور بہت کمزور۔‘‘
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔