’پاکستانی سیاست میں ملی مسلم لیگ کی کوئی اہمیت نہیں‘
15 اگست 2017پاکستان کی سیاسی جماعتوں خصوصاﹰ لبرل اور سیکولر سیاسی پارٹیوں کی ملی مسلم لیگ کی تشکیل پر خاموشی پر کئی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار احسن رضا نے اس خاموشی پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’لوگ سمجھ رہے تھے کہ ملی مسلم لیگ کو انتخابی سیاست میں آنے میں وقت لگے گا لیکن تشکیل کے فوراﹰ بعد ہی انہوں نے نواز شریف کے حلقے سے انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انتہاپسندی کے خلاف بولنے والی جماعتیں ایک ایسے گروہ کے سیاست میں آنے پر خاموش ہیں، جنہیں بین الاقوامی برادری عسکریت پسند سمجھتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دائیں بازو کی جماعتیں تو اس نئی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کرنے کا بھی سوچیں گی،’’میرے خیال میں پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی مستقبل میں مقامی سطح پر ان سے سیاسی اتحاد کر سکتی ہیں، اس لئے وہ ان پر تنقید نہیں کر رہی ہیں لیکن پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیکولر اور لبرل جماعتیں ملی مسلم لیگ کے خلاف اس لئے تنقید نہیں کر رہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ جماعت الدعوہ کے کارکن ان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ تو خوف کا عنصر خاموشی کا باعث ہے۔ صرف ایم کیو ایم الطاف گروپ ان کے خلاف بول سکتا تھا لیکن اس پر پہلے ہی غیر اعلانیہ پابندی ہے۔‘‘
لیکن پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکڑ عمار جان کے خیال میں انتخابی سیاست میں ملی مسلم لیگ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی لئے سیاسی جماعتیں اس تشکیل کو نظر انداز کر رہی ہیں، ’’میرے خیال میں جماعت الدعوہ والوں کی یہ نئی پارٹی انتخابی سیاست میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر پائے گی۔ یہ تشکیل ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب نواز شریف، عمران خان اور بلاول بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ سیاسی ماحول میں حدت ہے اور سیاسی جماعتیں ہی مرکزِ نگاہ ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید کر رہی ہیں کیونکہ وہ سیاسی طور پر ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں۔ میرے خیال میں اس مقابلے میں ملی مسلم لیگ کی کوئی اہمیت نہیں۔ ‘‘
جماعت الدعوة کی ’ملی مسلم لیگ‘ سے لبرل حلقوں کو پریشانی
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’یہ نئی جماعت انتخابی سیاست میں صرف اس وقت اہم ہو سکتی ہے جب پاکستان کی انتخابی سیاست میں کشمیر ایک اہم موضوع بن جائے لیکن ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لئے مجھے نہیں لگتا کہ یہ پارٹی کوئی بہت زیادہ کامیاب ہوگی۔ اس کے علاوہ ان کی تربیت بھی جمہوریت کے خلاف رہی ہے تو جمہوری کلچر اپنانے میں انہیں بہت دقت ہوگی۔ یہ کوئی ایسی نئی بات بھی نہیں کر رہے ، جو جماعتِ اسلامی یا جے یو آئی ایف نے نہ کی ہو۔ تو میرے خیال میں تو یہ بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ اسی لئے سیاسی جماعتیں ان پر توجہ نہیں دے رہی۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹ کے رکن تاج حیدر نے کہا کہ ان کی جماعت اصولی طور پر یہ موقف رکھتی ہے کہ انتہا پسند تنظیموں کے لئے سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے،’’ہم نے کوئی باقاعدہ بیان اس جماعت کی تشکیل کے خلاف نہیں دیا ہے لیکن ہم ان سے خوفزدہ نہیں۔ یہ دہشت گرد ہیں اور ان کا تعلق ایک کاالعدم تنظیم سے ہے۔ تو کاالعدم تنظیم کے افراد کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیے۔ ان کو سیاست میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔ اس سے بین الاقوامی برادری میں ہمارے اس دعوے پر سوالات اٹھیں گے، جو ہم مذہبی انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کے ان کی پارٹی دوسری سیاسی جماعتوں سے مشورہ کر کے اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھائے گی،’’لیکن صرف مسئلے کو اٹھانے سے ہی انتہا پسندی کاخاتمہ نہیں ہوگا بلکہ جنرل ضیاء کے دور میں آئین میں کی گئی تبدیلیوں کو ختم کرنا ہوگا ۔‘‘