پاکستانی شہر مٹھی، ہندو مسلم رواداری کا نخلستان
10 اکتوبر 2018مٹھی کے رہائشی ستر سالہ شام داس کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مسلمان ہمارے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ یہاں پر گائیوں کو ذبح بھی نہیں کیا جاتا یا صرف دور دراز کے دیہات میں ایسا کیا جاتا ہے۔ مسلمان ہندوؤں کے پڑوس میں تو ایسا بالکل بھی نہیں کرتے۔‘‘
پاکستان کے دیگر شہروں کے برعکس ہندوستانی ریاست راجستھان سے ملنے والے صحرا تھر پارکر کے شہر مٹھی کی گائیں آزاد گھومتی ہیں۔ اکثر یہ کوڑے کے ڈھير سے کھا رہی ہوتی ہیں اور سڑکوں کے کناروں پر ہی لیٹی رہتی ہیں۔ اس شہر میں کہیں تو موٹر سائیکل اور رکشہ سوار اپنا راستہ خود بنا کر آگے نکل جاتے ہیں لیکن کئی لوگ صبر کے ساتھ ان گائیوں کے آگے پیچھے ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
مٹھی تقریبا ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور اس کی اکثریتی آبادی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ شہر اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ پچانوے فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں ایسے زیادہ اقلیتی افراد پر مشتمل شہر کم ہی ہیں۔ اس شہر میں جہاں مندروں کی گھنٹیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں وہاں آذانوں کی آوازیں بھی آ رہی ہوتی ہیں۔
شری کرشنا مندر کے باہر نوجوان ہندو لڑکوں کے گروپ آزادی سے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور مندر کی حفاظت کے لیے کسی ایک بھی سکیورٹی گارڈ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
اس شہر سے تقریباﹰ تین سو کلومیٹر دور واقع کراچی کے مقابلے میں یہاں کے حالات بالکل مختلف ہیں، جہاں اس اقلیت کی تمام عبادت گاہوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔
کراچی کے ایک ہندو پنڈت وجے کمار کے مطابق کراچی میں تین سو ساٹھ کے قریب مندر ہیں لیکن ان میں سے صرف درجن بھر میں ہی مذہبی تقریبات کا انعقاد کرایا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’باقی ماندہ یا تو بند کر دیے گئے ہیں یا پھر ان کی زمین پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔‘‘
پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق اس ملک میں ہندو کمیونٹی خود کو ’غیر محفوظ‘ محسوس کرتی ہے۔ ہندو رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی کے لوگوں کو ’زبردستی اسلام قبول کرانے‘ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ان رہنماؤں کی طرف سے یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ہندو لڑکیوں اور خواتین کو شادی کا جھانسہ دے کر انہیں اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر ان کی شادی مسلمان لڑکوں سے کر دی جاتی ہے۔
لیکن ان تمام تر الزامات کے باجود مٹھی کے حالات قدرے مختلف ہیں۔ اس شہر کے مسلمان اور ہندو امن اور رواداری سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس شہر کے رہائشیوں کے مطابق مذہبی تہواروں پر وہ ایک دوسرے کو تحائف اور مٹھائیاں بھی دیتے ہیں۔
مٹھی کے پینتیس سالہ تاجر سنیل کمار کا کہنا تھا، ’’میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، میں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان برادری، محبت اور ہم آہنگی کا ہی مشاہدہ کیا ہے۔‘‘
ا ا / ع س (اے ایف پی)