1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتایشیا

پاکستانی صحافت کے جنٹلمین، خدا کی پناہ!

8 ستمبر 2020

باکسنگ رنگ کا فلور جسموں سے ٹپکتے پسینے سے پھسلواں ہو گیا ہے، باکسر اچھل اچھل کر ایک دوسرے کے منہ پہ گھونسا جڑ دینے کی بار بار کوشش کر رہے ہیں۔ شائقین تالیاں پیٹ کر فریقین کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3iA4c
Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
تصویر: privat

واہ واہ کی گونج میں جو کسی مخالف کھلاڑی کا  ذرا دھیان بٹا اور  وہ  پڑا مُکا۔ ناظرین پاکستان کے بھاری بھر کم صحافیوں میں جاری باکسنگ میچ  دس دس کے اسکور سے برابر جا رہا ہے۔

مصالحہ تھوڑا تیز ہو گیا؟

چلیں مان لیتے ہیں کہ صحافی  اور باکسر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ باکسر رہے بس نشانے، وقت اور جسمانی پھرتی  کے کھلاڑی اور صحافی تو بڑے صاحب ہوتے ہیں،گیان والے، علم و زبان والے۔  ان کی توقیر کے صدقے ہم انہیں جنٹلمین کہہ لیتے ہیں۔

پاکستانی صحافت کے جنٹلمین ان دنوں، جس موڈ میں ہیں، اس سے یہی منہ سے نکلتا ہے، خدا کی پناہ! ۔ کوئی بھی دوسرے کو بخشنے کا روادار نہیں۔ سب کے پاس ایک دوسرے کے رازوں کی چابیاں ہیں۔ سب کے پاس ایک دوسرے کے شجرے، حسب نسب، زر زمین، مال منال، میکے سسرال، سب کا احوال موجود ہے۔

شائقین کی مجبوری ہے کہ انہیں دیکھنے کو تماشا چاہیے، پھر چاہے وہ بڑے ٹھیکیدارکی بہو بیٹیوں کا ہو، کرنل کی بیوی کا ہو، ایک وفاقی وزیر اور کچھ صحافیوں کا ہو یا پھر صحافت کے ان جنٹلمینوں کا ہو۔ سوشل میڈیا پر ادھر کوئی سُرسُری چھوڑیں پھر دیکھیں کیسے یہ سارے سوٹڈ بوٹڈ ایک دوسرے کی ٹائیاں ڈھیلی کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ صحافت میں سب کے سب جنٹلمین بارہ سنگھے ہیں۔ جو وقت گزرنے اور تجربات سے ذرا گھاگ  ہو گئے  انہیں علم ہے کے ان کے سر پہ سینگ ہیں، کسی نے قریب پھٹکنے کی جرات کی  تو دے ماریں گے۔ چونکہ اپنے مخالف کی طاقت کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے، اس لیے  یہ ہمہ وقت آپس میں ہی  سینگ سے سینگ پھنسائے رکھتے ہیں۔ رہ گئی صحافتی بارہ سنگھوں کی نئی پود، تو جب جب دنگل ہوتا ہے، وہ بھی اپنا سر آزمانے آجاتے ہیں۔

سر پہ طاقت کے بارہ سینگ رکھنا عیب نہیں،  لیکن انہیں کب کون اپنا آپ بچانے کے لیے آپس میں بھڑا دے، ممکنات کی پٹاری میں یہ بات اوپر ہی رکھی ہوتی ہے، جو ہر کچھ عرصے بعد باہر نکل آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان کی صحافی خواتین تقسیم کا شکار کیسے ہوئیں؟

صحافت اور سیاست میں تفریق لازم ہے!

یہ جنٹلمین لکیر کھینچنے کے عادی ہیں۔ یہ وہ حد فاصل ہے، جو ان کے تئیں باطل کو حق سے  جدا کرتا ہے۔ یہ لکیر کوئی  ایک ٹویٹ ہو سکتی ہے، کوئی خبر ہو سکتی ہے، جس سے اختلاف یا سوال اگلے کو پل بھر میں لکیر کی دوسری طرف یعنی باطل  اینڈ کمپنی  کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ یہ اس معروف نعرے جیسا ہے کہ 'جو نہ مانے وہ بھی کافر‘۔

حق و باطل کے یہ فیصلے سرکاری حج اسکیم کی بنیاد پر بھی قائم کیے جا سکتے ہیں، صحافی کی بیگم یا شوہر کی نوکری وجہ بن سکتی ہے، سرکاری پلاٹ یا مراعات کے حاصل کرنے پر بھی۔ جنٹلمین چونکہ لفظوں کے بادشاہ ہوتے ہیں اس لیے یہ حق و باطل کے درمیان کھینچی اس لکیر  کے یہاں وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ لوگ بیچارے گڑبڑا کے رہ جاتے ہیں کہ آیا کوئی لکیر ہے بھی کہ نہیں۔

کیچڑ اچھالنا کوئی اچھی بات تو نہیں اسی لیے ان جینٹل مینوں نے ایک دوسرے کی صداقت  پہ کالک ملنے کو ' حقائق دنیا کے سامنے لانا‘ جیسے  ستھرے لفظوں کا جامہ پہنایا ہے۔ ان کی گرما گرم زبانی جنگ کو  مُکے بازی اور سوشل میڈیا کو ان کا باکسنگ رنگ نہ کہیں تو کیا کہیں؟

ہم جیسے وہ صحافی جنہوں نے ان  جنٹل مینوں کو دیکھ کر  صحافت سیکھی، وہ سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ یا اللہ بہت حقیقت آشکار ہو گئی کچھ تو انہیں توفیق دے کہ یہ ایک دوسرے کے عیبوں،کمزوریوں اور مشکل وقتوں کی  پردہ پوشی کرنا سیکھیں۔ انہیں عوامی فلاح اور بھلائی کے بڑے مقصد کی راہ میں ذاتی عناد کو پیچھے رکھنا سکھا دے۔

کوئی  انہیں بتائے کہ کراچی میں ریپ کے بعد جلائی جانے والی بچی کے اہل خانہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کس جنٹلمین نے کتنوں کو نوکری دلائی، یا پھر کسی  لاپتا بلوچ کے گھر والے بیٹھ کر یہ فہرست نہیں بنا رہے کہ باجکو اور پاپا کے پیزا والی اسٹوری پر کتنے صحافیوں نے تصدیق کی مہر لگائی۔

صحافیوں، گینگسٹرز یا پریشر گروپ، چابی والے  کھلونوں اور بارہ سنگھوں میں فرق ہونا چاہیے۔ خبر دینے  اور خبر دے کر سب  کی خبر لینے میں فرق ہونا چاہیے۔ سچائی کا بول بالا کرنے اور  سیاسی مہم چلانے میں فرق ہونا چاہیے۔ آن لائن ٹرول اور ایک عامل صحافی میں فرق ہونا چاہیے۔ ایک باکسر اور ایک جنٹلمین صحافی میں فرق ہونا چاہیے۔