1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
میڈیاپاکستان

پاکستانی صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار نذیر ناجی سپرد خاک

22 فروری 2024

ممتاز پاکستانی صحافی اور کالم نگار نذیر ناجی کو جمعرات بائیس فروری کو اہل خانہ اور مداحوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ نذیر ناجی الزائمر کے مریض تھے اور ان کا کل بدھ کی شام انتقال ہو گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4cjty
Pakistan | Nazir Naji, renommierter Journalist und Autor, verstorben
نذیر ناجی، دائیں، کی کالم نویس یاسر پیرزادہ کے ساتھ ایک تصویرتصویر: Y. Peerzada

اسی برس سے زائد کی عمر میں انتقال کر جانے والے نذیر ناجی ان افراد میں شامل تھے، جنہیں 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کے دوران وزیر اعظم ہاوس سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں پوچھ گچھ کے طویل عمل سے بھی گزرنا پڑا تھا۔ وہ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین بھی رہے تھے۔ وہ سن 2012 میں روزنامہ دنیا سے بطور گروپ ایڈیٹر منسلک ہوئے تھے۔ نذیر ناجی کو ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

نذیر ناجی پاکستان میں اردو صحافت کا بڑا نام تھے۔ انہوں نے روزنامہ جنگ، دنیا اور نوائے وقت سمیت ایک درجن سے زائد صحافتی اداروں میں کام کیا۔ وہ روزنامہ امروز سے بھی وابستہ رہے تھے۔ وہ انیس سو ستر میں مولانا کوثر نیازی کے جریدے شہاب سے بھی منسلک رہے۔ ان کا کالم ”سویرے سویرے”پاکستان کے قارئین میں بہت مقبول رہا۔

پاکستان کے سینئر صحافی اور نذیر ناجی کے ایک سابق رفیق کار محمود شام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نذیر ناجی پاکستان کے کثیر الاشاعت میگزین ”اخبار جہاں" کے بانی ایڈیٹر تھے۔ وہ روزنامہ جنگ کے ساتھ ستائیس سال وابستہ رہے۔ ان کا کالم جب جنگ میں چھپتا تھا، تو ان دنوں جنگ کے گروپ ایڈیٹر محمود شام ہی تھے۔

محمود شام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا کالم تحقیق سے مزین اور عمدہ لسانی اظہار لیے ہوئے ہوتا تھا۔ وہ عام فہم اور سادہ جملوں کے ذریعے مشکل سے مشکل بات کرنے میں قدرت رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت کم لوگوں کو اب یہ بات یاد ہو گی کہ نذیر ناجی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے۔ انہوں نے غزلیں اور نظمیں بھی کہیں لیکن ان کی آزاد نظمیں بہت جاندار تھیں۔

ڈی ڈبلیو کے ایک سوال پر نذیر ناجی کے چھوٹے بھائی علی اصغر عباس نے نذیر ناجی کا یہ شعر سنایا:

مہمان ہزار رنگ کے آ کر چلے  گے

گھر کس کے انتظار میں خالی پڑا رہا

محمود شام نے بتایا کہ نذیر ناجی بائیں بازو کے نظریات کے حامل تھے اور وہ پوری شدت کے ساتھ دائیں بازو کے لکھاریوں کے ساتھ نبرد آزما رہتے۔ اس کشمکش میں انہیں کئی بار اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کے بقول نذیر ناجی نے تیسری جماعت میں اسکول کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ ان کی ساری سوجھ بوجھ ان کی ”سیلف لرننگ" کا نتیجہ تھی۔

نذیر ناجی کے چھوٹے بھائی علی اصغر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نذیر ناجی کا اصل نام نذیر احمد تھا اور وہ اپنی تحریروں میں قلمی نام نذیر ناجی استعمال کیا کرتے تھے۔ ”ناجی صاحب کا خاندان تقسیم ہند کے بعد مشرقی پنجاب کے علاقے فرید کوٹ سے پاکستان آ کر بہاولنگر آباد ہوا۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کے بعد نذیر ناجی اپنے خاندان کے ہمراہ جھنگ منتقل ہو گئے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ وہاں کچھ کام کاج کریں، لیکن وہ اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف فیصل آباد چلے گئے اور وہاں سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ وہاں وہ روزنامہ عوام، غریب، اور پیام سے منسلک رہے۔ پھر وہ کراچی چلے گئے تھے۔"

’’کراچی میں وہ روزنامہ انجام کے لیے رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کی اپنے ایڈیٹر سے ان بن ہو گئی۔ ان کا ایڈیٹر جانتا تھا کہ نذیر ناجی کو انگریزی بالکل نہیں آتی۔ اس نے ان کا تبادلہ ڈیسک پر کر دیا۔ جہاں پر سب ایڈیٹر کو انگریزی متن کا اردو ترجمہ کر کے خبریں تحریر کرنا ہوتی تھیں۔ وہاں سے نذیر ناجی نے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور ڈکشنری اور ڈان اخبار لے کر بیٹھ گئے۔ سات دنوں بعد آ کر انہوں نے انگریزی متن کو کامیابی سے اردو میں ڈھال کر اپنے ایڈیٹر کو حیران کر دیا۔ پھر ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ پاکستان ٹوڈے سمیت کئی انگریزی اخبارات میں نذیر ناجی کی تحریریں ترجمہ ہو کر انگریزی میں بھی شائع ہوتی رہیں۔‘‘

ناجی نواز شریف کے اسپیچ رائٹر بھی رہے، ان پر سیاسی طور پر چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کے الزامات بھی لگے، ان کے بچوں کی ملازمتوں پر بھی سوالات اٹھائے گئے لیکن انہوں نے ایسے معاملات میں کبھی دفاعی موقف اختیار نہ کیا۔

ممتاز صحافی اکمل شہزاد گھمن کی کتاب ”میڈیا منڈی" کے لیے دئے گئے ایک انٹرویو میں ناجی کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت کی پالیسی کے مطابق ارکان اسمبلی کو دیے گئے ملازمتوں کے کوٹے سے اپنے بچوں کو ملازمت دلوائی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ان کا گھر ان کی درخواست پر ان کے دوست اور بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض نے بنوا کر دیا تھا۔ حکومتوں کے بدلنے سے وفاداریاں بدلنے کے الزام پر انہوں نے تب بتایا تھا کہ اگر یہ الزام درست ہوتا تو ضیاالحق سمیت مختلف ادوار میں انہیں صعوبتوں سے نہ گزرنا پڑتا۔

نذیر ناجی تین سال سے صاحب فراش تھے اور عملًا صحافتی امور سرانجام نہیں دے پا رہے تھے۔ پاکستان میں صحافت مالکان کی طوطا چشمی کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن نذیر ناجی کے اہل خانہ نے بتایا کہ ان کے اخبار نے آخری وقت تک ان کی تنخواہ اور مراعات جاری رکھیں اور ان کے لیے ڈاکٹرز ہسپتال میں ایک کمرہ مستقل مخصوص رکھا گیا تھا۔

نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے نذیر ناجی کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ نذیر ناجی مرحوم کی شعبہ صحافت کے لیے خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔