پاکستانی طالبان کا اہم رکن امریکی بلیک لسٹ میں شامل
21 جنوری 2011امریکی حکام کے مطابق اب ان کا اگلا قدم ان تمام اثاثہ جات اور آمدنی کوضبط کرنا ہےجن کا تعلق قاری حُسین سے ہے۔ قاری حُسین کو تحریک طالبان پاکستان کے اعٰلی نائبین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو پہلے ہی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔
امریکی حکام کا ماننا ہے کہ قاری حُسین اردن سے تعلق رکھنے والے اس شخص کےزیرتربیت رہا ہے جس نے 2009ء میں افغانستان کے ایک امریکی اڈے پر خود کش حملے کیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں امریکی سی آئی اے کے سات اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی دفتر خارجہ کے مطابق قاری حُسین کی جانب سے منظم کیے گئے کیمپوں میں خود کش حملوں کے لیے لوگوں کو بھرتی اور ٹریننگ دینے کا کام کیا جاتا ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق یہ کیمپ کم عمر بچوں کو بڑی تعداد میں خود کش حملوں کے لیے بھرتی کرنے کے حوالے سے مشہور سمجھا جاتا ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اوباما انتظامیہ پاکستان کی اعٰلی قیادت پر زور دے رہی ہے کہ وہ افغانستان میں تعینات امریکی افواج پر حملوں میں ملوث اُن عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کرے جو حملہ کرنے کے بعد پاکستان میں پناہ لے لیتے ہیں۔
اب جبکہ امریکہ کی جانب سے افغانستان سے سن 2011ء کے وسط میں اپنی افواج کی واپسی کا آغاز کرنے اور اس طویل اور مہنگی ترین جنگ کو ختم کر دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، پاکستان اور امریکہ کے اتحاد میں تناؤ نظر آنا شروع ہو چکا ہے۔
ادھر ان پاکستانی طالبان کا القاعدہ کے ساتھ تعلق ہونے کی تصدیق بھی ہوچکی ہے۔ یہ پاکستانی طالبان نہ صرف پاکستان بھر میں ہونے والے خودکش حملوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں بلکہ گزشتہ سال امریکہ کے نیو یارک ٹائمز اسکوئر میں ایک گاڑی میں نصب کیے گیے بم کو اڑانے کی ناکام کوشش کی منصوبہ بندی کرنے کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: افسر اعوان