پاکستانی فنون لطیفہ پر دہشت گردی کے سائے
20 مئی 2011تین روزہ عالمی ادبی و ثقافتی کانفرنس میں شریک ماہرین کی تقریریں ملے جلے جذبات سے بھرپور تھیں لیکن اس بات پر سبھی متفق تھے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی لہر نے اس ملک کے فنون لطیفہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مقررین کے بقول اس نقصان کی تلافی کے لیے عالمی اور مقامی طور پر کچھ زیادہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آ رہی ہیں۔ پاکستان میں لوک موسیقی کی روایت کے عنوان سے ہونے والی نشست سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز لوک فنکار عطااللہ عیسیٰ خیلوی کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق اس علاقے سے، جہاں آج بھی موسیقی کی کیسٹوں کی دکانیں نزر آتش کی جا رہی ہیں۔ ان کے بقول اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آج کا پاکستانی فنکار کن حالات میں کام کر رہا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کی فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کی ایک استاد ملیحہ آغٓا نے پاکستانی مصوری کے حوالے سے شرکائے کانفرنس کو بتایا کہ’’ہمارا معاشرہ اظہار آزادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ ایک آرٹسٹ کی مشکلات تو اور بھی زیادہ ہیں‘‘۔ ان کے بقول فنکار زمینی حقائق کے تابع ہونے کی وجہ سے آزادانہ ماحول میں نئے تجربے کرنے سے محروم رہتا ہے۔ انہوں نےکہا کہ مصور کا کام اپنے فن پاروں سے لوگوں کے ڈرائنگ رومز سجانا نہیں بلکہ اپنے برش سے معاشرے کے جمود کو توڑتے ہوئے مثبت تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ممتاز کارٹونسٹ شوکت میکسم نے اپنے مقالے میں کہا کہ پاکستان میں مصوری کے حوالے سے کوئی اچھی تنقید دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔ ان کے بقول جگہ جگہ فائن آرٹس سکھانے کے ادارے تو کھل رہے ہیں لیکن فائن آرٹس کے اچھے استاد ناپید ہیں۔
ڈرامہ نگار ڈاکٹر انور سجاد کی رائے تھی کہ پاکستانی ڈرامہ صحیح معنوں میں کبھی بھی عروج نہیں پا سکا البتہ زوال سے نکلنے کی یہاں بھرپور کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ ان کے بقول تخلیقی اعتبار سے اچھا، بھر پور اور سنجیدہ ڈرامہ تیار کرنا حکومتی سر پرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کے دور میں اچھے ڈرامے اس لیے نہیں لکھے جا رہے کیونکہ ان کی بازار میں کھپت نہیں ہے۔ سیٹھ کو ایسے ڈراموں کی ضرورت نہیں ہے اور حکومت کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں رہ سکا ہے، اس لیے ساری توجہ کمرشل ڈراموں کی طرف مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ تاہم سینئر صحافی عارف وقار کی رائے ان سے مختلف تھی۔ ان کے بقول پاکستان کا ٹی وی ڈرامہ بحرانی دور سے گزرنے کے بعد اب نئی بلندیوں کی طرف گامزن ہے۔
اداکار قوی خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ تمام نجی ٹی وی چینلز سے معیاری ڈراموں کی توقع رکھنا حقیقت پسندانہ طرز عمل نہیں ہے۔ ان کے بقول دوسروں پر تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ ہم سب اپنی اپنی کارکردگی بہتر بنائیں۔ پاکستان کے ممتاز اداکار مسعود اختر کا کہنا تھا کہ سکرپٹ کے غائب ہو جانے، غیر تعلیم یافتہ افراد کے تھیٹر میں آ جانے اور فحش رقص کی اجازت مل جانے سے اب تھیٹر ڈرامے نائٹ کلب بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان میں کلاسیقی موسیقی کی تاریخ کے حوالے سے منعقدہ نشت میں بات کرتے ہوئے موسیقی کے استاد پرویز پارس کا کہنا تھا کہ ماضی میں موسیقی کے فن سے آگاہی رکھنے والے نواب، راجے اور مہاراجے اس فن کی بھر پور سرپرستی کرتے تھے۔ ان کے بقول آج موسیقی کے علوم سے نا آشنا بیوروکریٹ کلچر کے فروغ کے لیے روایتی انداز میں اپنی سرکاری ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔
نامور ناول نگار عبداللہ حسین نے ڈوٓئچے ویلے کو بتایا کہ ناول لکھنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے اور آج کا ادیب محنت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اسی لیے ناول نگاری کم ہو رہی ہے جبکہ شاعری کے لیے دھڑا دھڑ زور لگایا جا رہا ہے۔ بھارت سے آئے ہوئے ادیبوں کا خیال تھا کہ مجموعی طور پر اردو افسانے کے سو سال کافی روشن اور تابناک ہیں۔ موضوعات کا تناؤ، کرداروں کی پیشکش کے حوالے سے آج کا اردو افسانہ کسی بھی دوسری زبان میں لکھے جانے والے افسانے سے کم تر نہیں ہے۔ پاکستان میں غزل گائیکی کے مستقل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ممتاز گلوکار استاد حامد علی خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پچھلے کئی سالوں میں ملکی حالات کی وجہ سے اردو غزل بہت پیچھے چلی گئی تھی لیکن ان کے بقول اب پاکستان میں غزل کی گائیکی کا مستقبل بہتر دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ پاکستانی لوگ غزل سننا چاہتے ہیں صرف میڈیا کو اپنی ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ حامد خان کے بقول موسیقی سے نسبت رکھنے والا انسان دوسروں کو دکھ پہنچاتے ہوئے ڈرتا ہے۔ ان کے بقول موسیقی انسان کو امن ، چین اور سچے جذبوں سے ہمکنار کرتی ہے۔
بھارت سے آئے ہوئے ممتاز ادیب اختر واسع نے اس تاثر کی تردید کی کہ بھارت میں اردو زبان و ادب تیزی سے زوال پذیر ہیں۔ ان کے بقول دہلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ اردو کے چار ٹی وی چینل اور کئی اردو اخبارات نکل رہے ہیں۔ ان کے بقول بھارت میں اردو نے نئی جغرافیائی وسعتوں کو تلاش کیا ہے۔ مہاراشٹر، تامل ناڈو ،کرناٹک اور بہار میں اردو آگے بڑھ رہی ہے۔ ممتاز ادیب ڈاکٹر سلیم اختر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس کانفرنس میں پڑھے گئے مقالوں کوکتابی صورت میں شائع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں کئی نئی باتیں، سوچ کے نئے زاویے اور نئے کنائے سامنے آئے ہیں۔ ان کے بقول یہ کانفرنس پاکستان میں فنوں لطیفہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ بعض شرکاء کا خیال تھا کہ اس کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالے پاکستان کی نئی قومی ثقافتی پالیسی کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ کانفرنس کے منتظم عطا الحق قاسمی کا کہنا تھا کہ ایسی کانفرنسوں کے انعقاد سے لوگ فنون لطیفہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور معاشرے میں موجود انتہا پسندانہ رویوں میں کمی آتی ہے۔ عطاالحق کے بقول پاکستان میں فنون لطیفہ کو فروغ دے کر ہم اپنے معاشرے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عدنان اسحاق