پاکستانی فوج نے جنوبی پنجاب میں بھی آپریشن شروع کر دیا
6 اپریل 2016وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ چھ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اعلیٰ حکام نے اس آپریشن کے شروع کیے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بھی کہا گیا ہے، ’’اس آپریشن کے تحت دہشت گردوں اور عادی مجرموں کے خلاف مربوط کارروائیاں جاری ہیں۔‘‘
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ فوج کے ترجمان شعبے ISPR کے اس بیان کے ساتھ چند ایسی تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں، جن میں ملکی فوج کے ہیلی کاپٹروں کو پنجاب کے میدانی علاقوں میں پرواز کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور جن میں ایسے نیم فوجی دستے بھی نظر آتے ہیں جو اس آپریشن کے لیے تیاریاں کرتے ہوئے گولہ بارود فوجی ٹرکوں پر لاد رہے تھے۔
یہ فوجی آپریشن اس حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع کیا گیا ہے جس میں مارچ کے مہینے کے آخر میں مسیحی مذہبی تہوار ایسٹر کے موقع پر طالبان عسکریت پسندوں کے ایک خودکش حملہ آور نے لاہور کے گلشن اقبال پارک میں بم دھماکا کر کے 73 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس حملے کی ذمے داری طالبان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی تھی جس نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس حملے کا مقصد ایسٹر کے مذہبی تہوار کے موقع پر مقامی مسیحی اقلیتی باشندوں کو نشانہ بنانا تھا۔
اس خونریز حملے سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی تھی کہ کافی عرصے تک بظاہر دہشت گردی سے محفوظ رہنے والے صوبہ پنجاب میں مسلح شدت پسندی کس طرح نشو ونما پا رہی ہے۔ پنجاب پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں سے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف تعلق رکھتے ہیں اور اسی صوبے میں وزیر اعلیٰ بھی کئی برسوں سے نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ہیں۔
ایسٹر کے موقع پر کیے گئے خودکش بم حملے کے بعد حکام نے کہہ دیا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان کے اس سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں اپنے ایک مربوط مسلح آپریشن کا آغاز کریں گے، جس کا مقصد دہشت گردوں اور شدت پسندوں کا قلع قمع ہو گا۔
اے ایف پی کے مطابق سلامتی کے امور کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس آپریشن کے دوران سکیورٹی ادارے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کریں گے بلکہ ایسے شدت پسند گروپوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا جو مذہب کے نام پر منافرت پھیلاتے ہیں یا مذہبی بنیادوں پر خونریزی میں ملوث رہے ہیں۔