پاکستان کی قبائلی آبادی کو بارودی سرنگوں سے لاحق خطرات
16 اپریل 2023شمال مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے پانچ بچوں کے اڑتیس سالہ والد سلطان خان نے کہا کہ ان کی زندگی اس وقت ''پلک جھپکنے‘‘ میں بکھر کر رہ گئی، جب گزشتہ ماہ ان کے بیٹے عزیر خان نے ایک بارودی سرنگ پر قدم رکھ دیا۔ حادثے کے وقت دس سالہ عزیر بکریاں چرا رہا تھا۔ سلطان اپنے بیٹے کو پشاور کے ایک ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچے کی ایک آنکھ اور تقریباً تمام انگلیاں ضائع ہو گئی ہیں۔
خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''میرے بیٹے کے آنسو چھلک پڑے جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی ہے۔‘‘اس حادثے نے خان کے اپنے بچے کو تعلیم دلانے اور اسے ڈاکٹر بننے میں مدد کرنے کے خواب چکنا چور کر دیے۔
سلطان کے مطابق حکومت نے اس کے علاج میں مدد کی اور اسے تقریباﹰ دو لاکھ روپے پاکستانی روپے (چھ سو تیس یورو) دیے۔ انہوں نے کہا، ’’لیکن اب میرے بیٹے کو زندگی بھر دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں یہ کیسے کروں گا۔‘‘
عزیر ایسا پہلا بچہ نہیں ہے جو افغانستان کی سرحد کے قریب شمال مغربی پاکستان میں بارودی سرنگ سے معذور ہوا ہے۔ یہ خطہ خاص طور پرخیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کے مضبوط گڑھ تھے۔ حکومت نے اس علاقے میں کئی فوجی آپریشن شروع کیے ہیں۔
حکومت سے مزید اقدامات کا مطالبہ
اگست 2020 ء میں بارہ سالہ راحیلہ بی بی، گیارہ سالہ شکیلہ بی بی اور چودہ سالہ ضیاء اللہ وزیر کو بارودی سرنگ کے دھماکے میں چوٹیں آئیں۔ ان بہن بھائیوں کے بڑے بھائی عطا اللہ وزیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب انہوں نے بارودی سرنگ پر قدم رکھے تو وہ باہر کھیل رہے تھے۔ ان کی کزن کی بیٹی مینا بی بی کو بھی اس دھماکے میں چوٹیں آئیں۔
واقعے کے بعد راحیلہ بی بی کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ اس کے بھائی ضیاء کی آنکھ اور ان کی بہن شکیلہ کی ٹانگ شدید زخمی ہوئی۔ راحیلہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں اپنا ہوم ورک کرنے میں دشواری ہو رہی ہے لیکن وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ اس لڑکی نے حکومت سے اپیل کی کہ اس کا مناسب علاج کروانے میں مدد کی جائے۔
عطا اللہ وزیر کا تعلق قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے ہے، جس کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور یہ علاقہ ماضی میں مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کا مرکز رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد ایک مزدور ہیں اور مہنگے طبی علاج کے متحمل نہیں ہوسکتے، جس میں راحیلہ کے مصنوعی ہاتھ اور ضیا کی آنکھ کا مہنگا علاج شامل ہوگا۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ علاج کے لیے رقم فراہم کرنے کے اپنے وعدوں سے مکر رہی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر حکومت ان کا علاج نہیں کر سکتی تو وہ ہمیں پیسے دے اور ہم ان کا علاج کرائیں گے۔‘‘
بارودی سرنگوں پر اختلافی موقف
پاکستان کے قبائلی علاقے طویل عرصے سے مقامی اور بین الاقوامی عسکریت پسند گروہوں کی سر گرمیوں سے متاثر ہیں۔فوج نے پچھلی دو دہائیوں کے دوران ان علاقوں میں متعدد کارروائیاں کیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ ان کارروائیوں کے بعد علاقوں کو بارودی سرنگوں سے پاک نہیں کیا گیا۔ جنگ مخالف کارکن عالم زیب خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت ان بارودی سرنگوں کی موجودگی کو بالکل بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بارودی سرنگیں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے دوران بچھائی گئی تھیں لیکن حقیقت میں یہ گزشتہ 20 سالوں کے دوران حکام نے بچھائی گئیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ان بارودی سرنگوں کی وجہ سے تقریباً 238 لوگ یا تو ہلاک ہوئے یا زخمی اور معذور ہو گئے، جن میں سے زیادہ تر واقعات شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پیش آئے۔ متاثرین میں سے زیادہ تر بچے تھے۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنان ایسے واقعات کا ذمہ داربارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے آپریشن کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق گورنر اورموجودہ مخلوط حکومت کے مرکزی رہنما اقبال ظفر جھگڑا ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ دھماکہ خیز مواد مقامی عسکریت پسندوں نے رکھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ دہشت گردوں کےخلاف آپریشن مکمل کر لیا جائے تو پھر اس علاقے کو بارودی سرنگوں سے پاک کیا جائے گا۔
یونیسیف کی اپیل تبدیلی لانے میں ناکام
عالم زیب خان نے جون 2021 ء میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں تین بچوں کی ہلاکت کے بعد احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان اموات نے یونیسیف کو بارودی سرنگوں کے بارے میں بیان جاری کرنے پر مجبور کیا۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی نے خبردار کیا کہ بچوں کو ''خاص طور پر پھٹ نہ سکنے والے ہتھیاروں اور بارودی سرنگوں سے خطرہ لاحق ہے، جو اتنی چھوٹی ہیں کہ وہ انہیں ہاتھوں میں اٹھا یا لات مار سکتے ہیں اور جنہیں وہ کھلونے یا قیمتی چیز سمجھ سکتے ہیں۔ ان بچوں کی تعداد بارودی سرنگوں اور عالمی سطح پر جنگ کی دیگر دھماکہ خیز باقیات سے زخمی ہونے والوں میں نصف سے زیادہ ہے۔‘‘
یونیسیف نے بھی اس معاملے میں پاکستانی حکومت کی مدد کرنے کا وعدہ کیا، ''کوئی بچہ بارودی سرنگوں یا جنگ کی دھماکا خیز باقیات کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یونیسیف بارودی سرنگوں اور بارودی مواد سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مائن رسک ایجوکیشن میں حکومت پاکستان کی مدد جاری رکھے گا تاکہ بحران سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے بچوں اور خاندانوں میں یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ بارودی سرنگوں کو صاف کرنا جاری رکھا جائے اور حادثات میں بچ جانے والوں کی بحالی اور ان کو دوبارہ مربوط کیا جائے۔‘‘
ایس خان ( ش ر⁄ ک م)