پاکستانی قبائلی علاقے: فوجی حکمت عملی کا دفاع
17 اکتوبر 2010پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں تعینات مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (ISAF) کے تحفظات بجا ہیں لیکن شمالی وزیر ستان میں فوجی آپریشن کی شروعات حالات و واقعات کے بغور مطالعے اور فوج کی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری ترجیحات کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کی روشنی میں کی جائے گی۔ وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان پرگہرا عالمی فوکس جاری ہے جب کہ دوسری جانب ملک سو سالہ تاریخ کے بدترین سیلاب سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ اس کے باوجود چونتیس ہزار فوجیوں کو شمالی وزیرستان کے مختلف مقامات پر تعینات رکھا گیا۔ وزارت خارجہ کے بیان میں یہ واضح کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان ہر گز غیر سنجیدہ نہیں ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا تازہ بیان شمالی وزیرستان میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں تیزی کے بعد سامنے آیا ہے۔ ان حملوں میں اب تک ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں شدت کی وجہ سے اسلام آباد اور واشنگٹن میں تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اسلام آباد نے ان حملوں کو اپنی خود مختاری اور سالمیت کے منافی قرار دیا ہے۔
اس مناسبت سے یہ اہم ہے کہ وائٹ ہاؤس میں مرتب کی جانے والی جو رپورٹ کانگریس کو پیش کی گئی تھی، وہ کسی طرح منظر عام پر آ گئی ہے۔ یہ رپورٹ رواں مہینے کے اوائل میں مرتب کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بھی براہ راست کسی جھڑپ سے پرہیز کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج کا آپریشن بظاہر جاری ضرور ہے لیکن یہ انتہائی سست ہے۔ پاکستان، امریکی مطالبے کے باوجود شمالی وزیرستان میں کسی فوجی کارروائی کو تاحال شروع کرنے کو سوچ نہیں رہا۔ واشنگٹن کے خیال میں شمالی وزیرستان اس وقت انتہا پسند طالبان سمیت دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے اہم لیڈروں کا مسکن اور عالمی مرکز ہے۔ شمالی وزیرستان کو جنوبی وزیرستان سے زیادہ دشوار گزار علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: کشور مصطفیٰ