پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں تک بہتر رسائی
14 اکتوبر 2010اقتصادی ما ہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستانی معیشت کو حالیہ تباہ کن سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔اس فیصلے کے مطابق یکم جنوری 2011 سے پاکستان کی 75 مصنوعات کو بغیر کسی قسم کے درآمدی محصولات کے یورپی منڈیوں تک رسائی مل سکے گی۔
ان مصنوعات میں سے 66 کا تعلق کپڑے کی صنعت سے ہے۔ پاکستان میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ صنعتکار اب یورپ سے بڑے آرڈر ملنے کی توقع کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں نئے پیداواری منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں اور کارخانوں کی استعداد بہتر بنانے کے لئے نئی مشینری کی درآمد پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
کئی اداروں نے نئے کارکنوں کی بھرتی بھی شروع کر دی ہے۔ توقع ہے کہ یورپی یونین کے اس اقدام سے پاکستان میں ہزاروں بے روزگار افراد کو روزگار مل سکے گا۔
آل پاکستان ٹیکسٹا ئل ملز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری انیس احمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس وقت یورپ جانے والی ٹیکسٹائل کی پاکستانی برآمدات کی مالیت قریب 2.4 بلین یورو بنتی ہے، جو یورپی ملکوں میں ٹیکسٹائل کی مجموعی درآمدات کا صرف 3.14 فیصد بنتا ہے۔
ان کے مطابق پاکستانی ٹیکسٹائل کی جن مصنوعات کو یورپ میں ڈیوٹی فری رسائی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان کی اس وقت پاکستان سے یورپ کو برآمدی مالیت 800 اور 900 ملین یورو کے درمیان بنتی ہے۔ انیس احمد کے بقول اس مالیت میں ہر سال سو ملین یورو سے زائد کا اضافہ ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس فیصلے کا یورپ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کوئی نقصان نہیں ہو گا البتہ پاکستان اور یورپی یونین کے باہمی تجارتی تعلقات پر بہت اچھا اثر پڑے گا۔
لاہور میں ایوان صنعت وتجارت کے سابق صدر پرویز حنیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی برآمدی مصنوعات کے دو بڑے شعبوں یعنی بیڈ لینن اور نٹ ویئر پر درآمدی ڈیوٹی کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔ ان کے بقول اگر ان مصنوعات پر بھی یورپ میں درآمدی محصولات ختم کر دئے جائیں تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
دریں اثناء پاکستان کی وفاقی وزارت تجارت نے پندرہ مزید ایسی برآمدی مصنوعات کی ایک فہرست تیار کی ہے، جن پر امپورٹ ڈیوٹی کے خاتمے کے لئے یورپی یونین سے درخواست کی جائے گی۔ حکام کے مطابق اس سلسلے میں فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے برسلز میں جمعہ کو ہونے والے اجلاس کے موقع پر بات چیت کی جائے گی۔
اقتصادی امور کے ماہر رضوان رضی کے مطابق یورپی یونین کے اس فیصلے سے جہاں زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا وہاں اس سے تجارتی عدم توازن کو بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں