1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی معاشرے میں اپنی شناخت کی جنگ لڑتے ’ٹرانس مرد‘

19 جنوری 2023

پاکستانی معاشرے میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کی ٹرانس خواتین کو مرد ٹرانس افراد کے مقابلے میں زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں ٹرانس مرد اپنی شناخت خفیہ رکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4MRdt
LGBTQ+ Bewegung in Thailand
تصویر: Kan Sangtong/Pacific Press/picture alliance

پاکستان کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ ٹرانس جینڈر امان کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے اپنے والد کے بہت قریب تھے۔ وہ اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، '' جب موسم شدید سرد ہوتا تھا تو میرے والد میرے ہاتھ تھام لیتے تھے تاکہ وہ گرم ہو سکیں۔ جب میں نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کا آغاز کیا تب بھی میرے والد رات کو میری واپسی کے منتظر رہتے اور چاہے بہت دیر ہو جائے وہ کھانا ہمیشہ میرے ساتھ کھاتے تھے۔‘‘

تاہم اب حالات بلکل مختلف ہیں۔ امان کے ایک مرد کے طور پر جینے کے فیصلے نے ان کی زندگی بدل دی ہے۔ ان کے والدین اور بہن بھائی اب ان سے بات نہیں کرتے۔ انہیں اپنے اس فیصلے کے باعث اپنی تعلیم اور اپنا گھر دونوں ہی چھوڑنا پڑے۔ انہوں نے تین بار اپنی جان لینے کی کوشش بھی کی۔

ایسی صنفی شناخت رکھنے والے مردوں کو پاکستانی معاشرے میں عموما قبول نہیں کیا جاتا۔ قدامت پسند رویے کے حامل مسلم اکثریت والے اس ملک میں جنس اور جنسیت سے متعلق مختلف عقائد سامنے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ٹرانس مردوں کو پاکستانی معاشرے سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔

تاہم ثقافتی روایات کے باعث ٹرانس خواتین کے حوالے سے معاشرتی قبولیت نسبتا بہتر ہوتی ہے۔

ٹرانس خواتین ٹی وی پروگرامز، پبلک آفسز، شوز اور فلموں میں دکھائی دیتی ہے جس سے پسماندہ اور معاشرے کی جانب سے دھتکاری ہوئی اس کمیونٹی کے بارے میں آگاہی پیدا ہوئی ہے۔

چاہتی ہوں کہ لوگوں کو ٹرانس جینڈرز کی کیفیات کا علم ہو، علینہ خان

آسکر ایوارڈز کے لیے نامزد پاکستانی فلم 'جوائے لینڈ‘ میں ایک شادی شدہ مرد اور ایک ٹرانس خاتون کے درمیان تعلقات دکھائے جانے کے سبب پاکستان میں کافی تنقید کا سامنا رہا، تاہم اس فلم کے باعث پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو درپیش مسائل کے بارے میں آگاہی بھی پیدا ہوئی۔

اس کے برعکس ٹرانس مرد پاکستان جیسے معاشرے میں بہت کم متحرک رہتے ہیں اور زیادہ تر اپنی پہچان چھپائے رکھتے ہیں۔ ٹرانس خواتین کو ان کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور نیٹ ورکس کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن امان اور ان جیسے کئی ٹرانس مردوں کو یہ شکایت ہے کہ ایسے ادارے بہت شاذ ونادر ہی ان کے مسائل سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

امان کہتے ہیں، ''یہ بہت غلط ہے۔ ہمیں پہلے ہی ہمارے خاندانوں کی جانب سے کوئی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ پھر جنہیں ہم اپنا سمجھتے ہیں وہ بھی ہمیں اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں۔‘‘

’خواجہ سرا‘ لفظ کے تاریخی پس منظر میں ٹرانس خواتین معاشرے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں جو کہ اصل میں سینکڑوں سال قبل جنوبی ایشیا کی مغلیہ سلطنت میں کام کرنے والے ٹرانس مردوں کے لیے ایک اصطلاح تھی۔ آج یہ اصطلاح عموما ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو  پیدا تو مرد ہوتے ہیں لیکن اپنی زندگی ایک عورت کے طور پر گزار رہے ہیں۔ خواجہ سرا کلچر میں 'گرو‘ کا ایک روایتی سپورٹ سسٹم بھی موجود ہے۔

تاہم اس کمیونٹی میں اب ایسے افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے جو عورت پیدا ہوئی ہو اور اپنی شناخت ایک مرد کے طور پر رکھتے ہوں۔ مانی جو کہ ایک ٹرانس میل کمیونٹی کے نمائندہ ہیں، کہتے ہیں کہ ہر 'خواجہ سرا‘ ٹرانس جینڈر ہے لیکن سب ٹرانس جینڈرز 'خواجہ سرا‘ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ''لوگ اس کمیونٹی کے متعلق تو جانتے ہیں لیکن ٹرانس مردوں کے بارے میں نہیں جانتے۔‘‘

مانی نے 2018 میں ٹرانس مردوں کی فلاح و بہبود کی خاطر ایک  نان پرافٹ گروپ بنایا۔ حالیہ عرصے میں پاکستان کی ٹرانس کمیونٹی کے حقوق کی پاسداری سے متعلق کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے میں ٹرانس افرد کو 'تیسری صنف‘ کے طور پر اپنی شناخت کرانے کی اجازت دے دی ہے۔ کورٹ کے اس فیصلے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ان افراد کے حقوق بھی پاکستان کے دیگر عام شہریوں جیسے ہیں۔

مانی پاکستان میں متعارف ہونے والے ٹرانس جینڈر بل 2018 کے تمام مراحل کا حصہ رہے ہیں لیکن اس بل کے قانون بننے کے بعد سے زیادہ تر لابنگ کا کام ٹرانس جینڈر خواتین نے ہی کیا ہے۔مانی نے کہا، ''کوئی بھی مرد ٹرانس جینڈرز کے بارے میں بات نہیں کرتا نہ اس متعلق کہ اس بل کا ان افراد پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘‘

’جاگی جاگی مورت جاگی‘، سندھ مورت مارچ

ٹرانس مردوں کی ان معاملات میں کم شمولیت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں خواتین پر زیادہ پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ ان کے لیے ہر چیر کی ایک حد مقرر کی جاتی ہے۔ خاندانی عزت اور وقار کو بھی لڑکیوں سے جوڑا جاتا ہے اور ان کے پاس معاشرتی روایات کے خلاف جانے کے بہت محدود مواقع ہوتے ہیں۔ اس لیے خواتین کے مسائل پر زیادہ بات ہوتی ہے۔

مالی طور پر مستحکم اور پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھنے والے امان کا کہنا ہے کہ بچپن میں ان کے والدین نے انہیں لڑکوں کی طرح زندگی گزارنے دی لیکن ایک وقت آیا جب ان سے توقع کی جانے لگی کہ وہ ایک لڑکی بن کر  رہنا شرع کر دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا مطلب سمجھتے تھے کہ انہیں ایک محدود زندگی گزارنا پڑے گی جس میں حدود بندیاں لاگو ہوں گی۔

وہ ایسی زندگی نہیں گزارنا چاہتے تھے لیکن اس بارے میں ان کے پاس کوئی بات کرنے والا بھی نہیں تھا۔ پھر ان کا رابطہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بھارتی ٹرانس مرد سے ہوا جس نے انہیں پاکستانی ٹرانس کمیونٹی کے واٹس ایپ گروپ میں شمولیت اختیار کرنے میں مدد دی۔

ان کا کہنا ہے کہ اپنی بقا کے لیے انہوں نے لمبے بال رکھ لیے ہیں اور لڑکیوں والے لباس زیب تن کرنا شروع کر دیے ہیں۔ امان کو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے خاندان کی عزت کو دھچکا نہیں لگنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''ان پابندیوں نے میرے دماغ میں ایک جنگ شروع کر دی تھی۔ آپ کو لوگوں سے ملنا پڑتا ہے اور میرے لیے ایک لڑکی کے طور پر لوگوں سے بات چیت کرنا مشکل تھا۔‘‘

ان کےمطابق انہیں لڑکوں سے دوستی کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ کہ یہ اس قدامت پسند معاشرے میں ایک 'ممنوع موضوع‘ ہے۔ ان کے والدین انہیں لڑکیوں کے ساتھ بھی گھلنے ملنے نہیں دیتے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ یہ امان کو ہم جنس پسندی کی طرف راغب کر سکتا ہے۔

دریں اثنا امان نے اپنے لیے تعلیم حاصل کرنے اور پیسے کمانے کا ہدف مقرر کیا اور ایک مرد کے طور پر زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی پر کام کرتے رہے۔ سن 2021 میں انہوں نے ہارمون تھیراپی شروع کرا دی تھی جس سے ان کی آواز میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہوئی۔

پاکستان میں ٹرانس جینڈر بل 2018ء کو تنقید کا سامنا کیوں؟

امان کے لیے حالات اس وقت تبدیل ہوئے جب ان کے ایک رشتہ دار نے جنس کی تبدیلی کے متعلق سوال کیا۔ تب امان کے والدین کے شک کو تقویت ملی کہ وہ تبدیلی جنس کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے امان سے کہا کہ اگر وہ مرد بن کر رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑے گا۔ ان کے والدین نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان کی جنس تبدیلی کے فیصلے کے باعث ان کے باقی بہن بھائیوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ امان نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور بطور مرد اپنی زندگی کی نئی شروعات کی جس میں مانی نے ان کی مدد کی۔

تاہم یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ ان بے شمار مسائل میں سے جن کا امان کو سامنا ہے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنے شناختی کارڈ پر سرکاری طور پر اپنی جنس 'مرد‘ میں تبدیل نہیں کروائی۔ انہیں ووٹ ڈالنے، بینک اکاؤنٹ کھولنے، نوکریوں کے لیے درخواست دینے اور صحت کی دیکھ بھال سمیت دیگر سرکاری سہولیات تک رسائی کے لیے اس کی ضرورت ہے۔

وہ ایک بار شناختی کارڈ بنانے والے ادارے نادرا گئے۔ انہیں وہاں عملے کی جانب سے ہراساں  کیا گیا۔ ان کا معائنہ کیا گیا، ان کے بارے میں طنزیہ گفتگو کی گئی  اور ان سے رشوت کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

امان خود کو تنہا اور الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''میں اپنی جنس سے مطمئن ہوں لیکن مجھے مزید زندہ رہنے کی خواہش نہیں ہے۔ میں اپنے خاندان سے پیار کرتا ہوں۔ مجھے اپنے والد اور اپنے بھائی کی ضرورت ہے۔‘‘

ر ب / ش ح (اے پی)