پاکستانی وزیر داخلہ اور ’نیا پاکستان‘
27 اپریل 2019ریٹائرڈ بریگیڈئر اعجاز احمد شاہ پاکستان کے سول خفیہ ادارے انٹیلیجنس بیورو (IB) کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ان کے ملکی وزیر داخلہ بنائے جانے پر سب سے سے زیادہ تنقید اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اس تنقید کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسی سیاسی جماعت کی مقتول لیڈر بےنظیر بھٹو اپنی زندگی میں بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو اپنا ’دشمن‘ تصور کرتی تھیں۔
پاکستانی سیاست کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزارت داخلہ کا منصب ایک سابق فوجی افسر کو دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقتور ملکی فوج سول حکومت پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ عمران خان کی حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ملکی فوج کسی حد تک اس پر اپنا اثر اول روز سے ہی رکھتی ہے لیکن اِس الزام کی سول حکومت اور فوجی جرنیل دونوں تردید کرتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے موجودہ وزیر داخلہ نے حال ہی میں واضح کیا کہ اُن کو وزارت داخلہ دینے کے پسِ پردہ فوج کا کوئی کردار نہیں اور ویسے بھی انہوں نے فوج کی ملازمت کو پندرہ برس قبل خیرباد کہہ دیا تھا اور اب وہ عام شہری ہیں۔ شاہ کے مطابق انہوں نے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں ایک عام شہری کی حیثیت سے بطور امیدوار حصہ لیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان کے دفتر اور وفاقی وزارت اطلاعات نے بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے خدشات کے جواب میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اعجاز احمد شاہ کو سن 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنا امیدوار بنایا تھا۔ انہوں نے یہ الیکشن صوبہ پنجاب کے علاقے ننکانہ صاحب سے لڑا تھا، جو ان کا آبائی شہر ہے۔ وہ گزشتہ برس پاکستان مسلم لیگ ن کی خاتون امیدوار شیزہ منصب علی کو ہرا کر قومی اسمبلی کے حلقہ 118 سے وفاقی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
کئی پاکستانی ایسے شکوک کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ بےنظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں ملکی خفیہ اداروں اور عسکریت پسندوں کی ملی بھگت بھی ایک مبینہ عنصر تھا۔ اسی لیے بےنظیر بھٹو نے اپنے ممکنہ قتل کی سازش میں جن چار افراد کے نام صدر پرویز مشرف کو تحریر کردہ خط میں لکھے تھے، ان میں بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کا نام بھی شامل تھا۔
اٹھارہ اکتوبر سن2007 کو بے نظیر بھٹو کے کراچی میں نکالے گئے جلوس پر بم حملے اور فائرنگ کے تقریباً سوا دو مہینے بعد ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت موجودہ وزیر داخلہ شاہ ہی انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔