پاکستانی کرکٹ ٹیم نئے چہروں کے ساتھ انگلینڈ میں
29 جون 2010لاہور سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ ذوالقرنین کو انکی فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ آل راؤنڈ کارکردگی کے بل بوتے پرسکواڈ میں جگہ ملی ہے۔ ذوالقرنین حیدرنے فرسٹ کلاس میچوں میں 223 کھلاڑیوں کو وکٹوں کے پیچھے شکار کرنے کے علاوہ 3 ہزار سے زائد رنز بھی سکور کئے ہیں تاہم وہ وکٹ کیپنگ کو بیٹنگ پراولیت دیتے ہیں۔
ریڈیو ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ذوالقرنین حیدر نے کہا کہ ماڈرن کرکٹ میں وکٹ کیپر کا اچھا بیٹسمین ہونا ضروری ہے تاہم وکٹ کیپر کے لئے وکٹ کیپنگ پہلے آتی ہے اور بیٹنگ بعد میں اور بیٹنگ میں جتنے رنز ہوجائیں وہ انہیں بونس سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ 60 رنز بنائیں اور دو کیچ چھوڑ دیں تو ٹیم کو اسکا کیا فائدہ؟ اسلئے ان کی کوشش ہوگی کے خود کو وکٹ کیپر بیٹسمین کے طور پر منوائیں۔
واضح رہے حالیہ برسوں میں پاکستان ٹیم کے سینئر وکٹ کیپرکامران اکمل نے بیٹنگ میں تو کئی کارنامے انجام دئے ہیں مگرانکی وکٹوں کے پیچھے فارم اچھی نہیں رہی۔
ذوالقرنین حیدرگزشتہ سات برس سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں مگرانہیں ٹیسٹ سکواڈ میں آنے کے لئے کئی پاپڑ بیلنا پڑے۔ یہاں تک کہ پچھلے برس جب لاہور کی ٹیم نے ان پر ایک دوسرے وکٹ کیپر کو ترجیح دیتے ہوئے پلئینگ الیون میں جگہ نہ دی تو وہ دلبرداشتہ ہوکراپنا بیگ اٹھا کے واپس گھر چلے گئے تھے۔
ذوالقرنین نے بتایا کہ انہیں قومی ٹیم میں جگہ بنانے کے لئے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی مشکل میں ہو تو حوصلہ دینے والا کوئی نہیں ملتا البتہ اچھے وقت میں ہرکوئی آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسلئے وہ دورہ انگلینڈ کو اپنا پہلا اورآخری موقع سمجھ کر فائدہ اٹھانے اور ٹیم میں جگہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی سرتوڑ کوشش ہوگی کہ سلیکٹرز اورکپتان کے اعتماد پر پوار اتریں۔
ذوالقرنین نے بتایا کہ آسٹریلیا کے ایڈم گلکرسٹ انکے پسندیدہ وکٹ کیپر ہیں۔ انہوں نے کہا ان دونوں کا قدوقامت ملتا جلتا ہے اورگلکرسٹ کا مشاہدہ کر کے ان سے کئی چیزیں سکیھی ہیں۔ ذوالقرنین حیدرجو2006 میں پاکستان کی جانب جنوبی افریقہ کے دورے میں ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیل چکے ہیں نے امید ظاہر کی کپتان شاہد آفریدی انہیں ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آفریدی نے ہمیشہ نوجوان کرکٹرز کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ کیمپ میں بھی کوچ اور کپتان کی وجہ سے نئے کھلاڑیوں کو دوستانہ ماحول ملا اور امید ہے کہ حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ انگلینڈ میں بھی جاری رہے گا۔
ذوالقرنین نے بتایا کہ کرکٹ میں آنے پرانہیں والدین کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے والد پڑھنے لکھنے پر زور دیتے تھے۔ مگر اب وہ خوش ہیں کیونکہ قومی ٹیم میں شامل ہونے کے علاوہ انہیں زرعی ترقیاتی بینک میں گریڈ 17 کی نوکری بھی مل گئی ہے۔
قومی ٹیم میں شامل کئے جانے والے کراچی کے میڈیم پیسر تنویر احمد نے بھی حال ہی ختم ہونے والے ڈومیسٹک سیزن میں97 وکٹیں اڑا کر ٹاپ کیا۔ عام خیال یہی ہے کہ پاکستان کی ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر تنویرایسا نہیں سمجھتے۔
تنویر احمد نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے وسیع تجربے کی وجہ سے انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کے معیار پر پوار اترنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا بھی اپنا معیار ہے اسکے علاوہ وہ انگلینڈ میں سات برس سے لیگ کھیل رہے ہیں اسلئے بھی وہاں کی کنڈیشنز ان کے لئے اجنبی نہیں ہونگی۔
تنویر نے بتایا کہ وہ پہلے بیٹنگ کرتے تھے مگر وقاریونس کو دیکھ کربالر بننے کا فیصلہ کیا۔ انہیں وقار کا ایکشن انکا وکٹیں اڑانے کا سٹائل اتنا پسند تھا کہ انہوں نے بھی فاسٹ بالر بننے کی ٹھانی۔ وہ کہتے کہ وقاریونس تو نہیں بن سکتے مگر اب آئیڈیل کے کوچ ہونے کی وجہ سے اولین دورے میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ضرور ملے گا۔31سالہ تنویر احمد کی عمر پر بعض حلقوں نے اعتراض کیا ہے مگر خود تنویر کہتے ہیں کہ اگر کوئی فٹ ہو اورکارکردگی دکھانے کا اہل ہو تو کسی کو عمر سے غرض نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا اگر آپ کی عمر25 سال ہے اور آپ کارکردگی نہیں دکھا پارہے تو اس کم عمری کا کیا فائدہ۔
رپورٹ :طارق سعید
ادارت : عدنان اسحاق