پاکستانی ہیجڑوں کے دکھ کون سنے؟
18 نومبر 2016عرف عام میں خواجہ سرا کہلانے والی پاکستانی مخنث برادری شدید معاشرتی اور معاشی امتیاز اور عدم مساوات کا سامنا کر رہی ہے۔ ملکی سپریم کورٹ کی جانب سے مخنث شہریوں کے باقاعدہ طور پر ’تیسری جنس‘ تسلیم کر لیے جانے کے باوجود قدامت پسند پاکستانی معاشرے سے اس برادری کو شکوہ یہ ہے کہ اس کی بات سننے والا کوئی نہیں اور اس کمیونٹی کا مطالبہ صرف یہ کہ اس سے ’انسانی سلوک‘ کیا جائے۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس جسمانی تشدد کی شکار شنایا نے کہا کہ چند لوگ اسے پوری رات زد وکوب کرتے رہے۔ ’’گو کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو اب گرفتار کیا جا چکا ہے، تاہم مجھے خوف ہے کہ یہ لوگ رہا ہو جائیں گے اور میں پھر ان کے ظلم کا نشانہ بنوں گی۔‘‘
شنایا کا کہنا تھا کہ ہیجڑے بھی انسان ہیں اور ان سے انسانی سلوک کیا جائے۔ ’’ہمیں تو ہر دن ہی تشدد، جنسی حملوں اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘‘ شنایا نے کہا کہ سماجی انصاف اس تشدد کا نام تو نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے والی اس ویڈیو پر ہزارہا پاکستانیوں کی جانب سے جو کئی مختلف طرح کے بیانات سامنے آئے، ان میں ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو اس تشدد کی مذمت کر رہے تھے، مگر دوسری جانب ایسے شہری بھی تھے، جو اس ویڈیو پر بھی عمومی معاشرتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پیٹے جانے والے ہیجڑے ہی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اس سے ٹرانس جینڈر یا مخنث برادری کی پاکستان میں حالت زار کی وجوہات اور اس موضوع پر عوام میں پائی جانے والی فکری تفریق واضح ہو جاتی ہے۔
مقامی میڈیا اس موضوع پر سنجیدہ اور معنی خیز گفت گو سے پہلو تہی کرتا ہے اور حقیقی معاملات سے یہی چشم پوشی اس برادری کے بہت پریشان کن اور خراب حالات کا بڑا سبب بھی ہے۔
لاہور میں پیدا ہونے اور ایک مرد کی طرح پلنے بڑھنے والی عالیہ پچھلے کچھ برسوں سے جرمنی میں آباد ہیں اور یہاں وہ ایک عورت کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں عالیہ نے پاکستان میں اس برادری کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے تو خوشی ہے کہ یہ ویڈیو منظرعام پر آئی اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم وہاں کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
عالیہ کا مزید کہنا تھا، ’’اس ویڈیو میں غیرعمومی کیا ہے؟ ایسے واقعات تو کسی بھی ٹرانس جینڈر کے لیے پاکستان میں معمول کی بات ہیں۔ ہر روز ریپ ہوتا ہے، ہر روز تشدد ہوتا ہے، ہر روز مذاق اڑایا جاتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ہمارے ماں باپ اور گھر والے بھی قبول نہیں کرتے۔‘‘
عالیہ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ’’جب کہیں کوئی ایسا بچہ پیدا ہوتا ہے، جس کی جنس کا والدین بظاہر خود تعین نہ کر سکیں، تو ماں باپ اس سے اپنی جان چھڑاتے ہیں اور اسے مخنث برادری کے کسی گرو کے حوالے کر دیتے ہیں، جہاں تشدد اور زیادتی سے بچاؤ کے تمام راستے بند ہو کر رہ جاتے ہیں اور پھر اس شہری کو تحفظ دینے والا کوئی نہیں رہتا۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں پاکستان کی عالیہ کا کہنا تھا، ’’ہمیں کوئی قبول کرنے پر تیار نہیں، نہ ماں باپ، نہ معاشرہ اور نہ ہی ریاست۔ تعلیم اور ملازمت کا کوئی انتظام نہیں اور حالت یہ ہے کہ کوئی بھی ٹرانس جینڈر فرد فقط بھیک مانگنے، ناچنے یا جنسی کاروبار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں ان جیسے شہریوں کی کسی ’جنسی شے‘ سے زیادہ کوئی اہمیت یا شناخت نہیں ہے۔
اس حوالے سے معروف مذہبی اسکالر جاوید غامدی کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا برادری کو دیگر انسانوں کی طرح تمام بنیادی حقوق مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’قرآن ہر بات نہیں بتاتا، بلکہ کچھ چیزیں انسانوں کی اپنی سماجی اور معاشرتی فکر پر بھی چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اپنے امور خود اپنے حالات کے مطابق انجام دیں۔‘‘
پاکستانی شہر کراچی میں جامعہ بنوریہ سے تعلق رکھنے والے مفتی نعیم نے بھی ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ پاکستانی ریاست کو مخنث برادری کی تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع کے لیے بھرپور اقدامات کرنا چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کو بھی چاہیے کہ وہ اس ’تیسری جنس‘ کو انسان سمجھیں اور انہیں کسی بھی طرح کے تشدد یا امتیازی رویے کا نشانہ نہ بنائیں کیوں کہ ’اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘