پراسرار خاموشی کے بعد ایک بار پھر ڈرون حملہ
21 فروری 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستانی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ تازہ حملے میں جنوبی وزیرستان کے ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز سے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں میں نمایاں شدت دیکھی گئی تھی۔ 2004ء سے اب تک ان حملوں میں لگ بھگ دو ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان کی اکثریت کو شدت پسند قرار دیا جاتا ہے، جن میں پاکستانی طالبان کے سابق لیڈر بیت اللہ محسود بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں گزشتہ تین ہفتے کے دوران ٹھہراؤ دیکھا گیا۔
سٹریٹیجک امور کے بعض ماہرین اسے لاہور میں زیر حراست امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس سے جوڑ رہے ہیں۔ مقامی میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش میں رہیں کہ ڈرون حملوں کا انتظام ڈیوس ہی کے پاس تھا۔
ادارہ برائے سٹریٹیجک علوم سے وابستہ سمبل خان کے بقول موجودہ صورتحال میں پاکستان اور امریکہ کی انسداد دہشت گردی سے متعلق پالیسی پر نئے سوالات اٹھتے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد میں قائم اس ادارے سے وابستہ اس عہدیدار کے مطابق اگر تو ایک امریکی شہری کی سلامتی کے لیے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے نہیں کیے جا رہے، تو یہ بات تشویشناک ہے۔
ڈیوس کے معاملے پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات میں تناؤ نمایاں ہے جبکہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو داخلی سطح پر بھی دباؤ کا سامنا ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں جنوبی ایشیا کے لیے پراجیکٹ ڈائریکٹر ثمینہ احمد کے بقول عین ممکن ہے کہ واشنگٹن ڈرون حملوں کی شدت میں کمی کر کے پاکستانی رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہتا ہو۔ لانگ وار جرنل نامی ایک فوجی بلاگ کے مطابق ڈرون حملوں میں یہ حالیہ وقفہ 2008ء کے بعد کا طویل ترین وقفہ تھا۔
واضح رہے کہ حکومتی سطح پر امریکہ اور پاکستان دونوں ان ڈرون حملوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ پاک انسٹییٹیوٹ فار پیس سے وابستہ محمد عامر رانا کے بقول ڈرون حملوں کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو رہا ہے کیونکہ اس سے امریکہ کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔
دی امریکن فاؤنڈیشن کے مطابق 2004ء سے اب تک ڈرون حملوں میں 2189 افراد مارے گئے، جن میں سے 1754 کو شدت پسند قرار دیا گیا تھا۔ اتوار 20 فروری سے قبل 23 جنوری کو ایک ڈرون حملہ کیا گیا تھا، جس میں شمالی وزیرستان کے ایک گاؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : امجد علی