پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کردار کيا ہو گا؟
28 اکتوبر 2024پاکستان کے نئے تعینات ہونے والے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے جسٹس منیب اختر کو سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بنانے کے فیصلے نے ایک نئی بحث چھيڑ دی ہے۔ اس کمیٹی کا کام عدالت میں زیر سماعت مقدمات کا انتخاب کرنا ہے۔ قانونی حلقوں کی رائے ہے کہ یہ پيش رفت سیاسی منظرنامے پر کسی حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے۔
کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اس کمیٹی کی اہمیت کم ہو چکی ہے۔ جب کہ بعض سینئر وکلاء کا خیال ہے کہ کمیٹی اب بھی نظرثانی درخواستوں، خاص طور پر آئینی نوعیت کی درخواستوں کی سنوائی سے متعلق فیصلے دے سکتی ہے۔
کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی میراث آنے والے دنوں میں یاد رکھی جائے گی؟
پاکستان نے آئینی ترمیم پر اقوام متحدہ کی تنقید کو مسترد کر دیا
پی ٹی آئی کی مخصوص پارلیمانی نشستیں پھر خطرے میں؟
اس وقت سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نظرثانی درخواست حکومت کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواست کو سماعت کے لیے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اُس وقت جسٹس منیب اختر کمیٹی کا حصہ تھے۔ بعد میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب کو کمیٹی سے ہٹا دیا تھا اور جسٹس امین الدین کو، جو سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے، کمیٹی میں شامل کر لیا تھا۔ بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ جسٹس عیسیٰ نے یہ اقدام کمیٹی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے اٹھایا اور ایک ہم خیال جج کو شامل کر کے مخالف نظریات رکھنے والے جج کو ہٹا دیا۔
اب نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک بار پھر جسٹس منیب کو سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل کر دیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جسٹس منیب اختر سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے ہیں۔ اس وقت کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔
بحث جاری ہے کہ آیا جسٹس منیب کی بحالی محض سینیارٹی کی بنیاد پر ہوئی ہے یا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے انہیں کمیٹی میں شامل کیا ہے تاکہ وہ جسٹس منصور علی شاہ یا اپنے ہم خیال ججز کے ساتھ مل کر مخصوص مقدمات کا فیصلہ کر سکیں اور جسٹس امین الدین سے پیدا ہونے والی ممکنہ رکاوٹ سے بچ سکیں، جنہیں موجودہ حکومت کے لیے نرم مزاج رکھنے والے جج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بعض قانونی حلقوں کا خیال ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ فرق زیادہ اثرانداز نہیں ہو گا۔ کمیٹی کا کردار اب عمومی مقدمات تک محدود ہو گیا ہے اور آئینی نوعیت کے کیسوں کو نہیں سنا جا سکتا، جیسا کہ 26ویں ترمیم میں فراہم کیا گیا ہے۔ سینئر وکیل احسان احمد کھوکھر نے کہا، ''26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں اور سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اب صرف عمومی نوعیت کے کیسوں پر فیصلہ کر سکتی ہے، آئینی نوعیت کے کیسوں پر نہیں۔‘‘
کچھ قانونی ماہرین اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کمیٹی اب بھی نظرثانی درخواستوں کے فیصلے کر سکتی ہے، چاہے وہ آئینی ہوں یا عمومی۔ اس تناظر میں کمیٹی پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے جیسے کیسوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کیس میں نظرثانی درخواست دائر کر رکھی ہے جس پر اب تک سماعت نہيں ہو پائی ہے۔ سابق چیف جسٹس اس درخواست کو سماعت کے لیے لینا چاہتے تھے لیکن کمیٹی میں موجود ان کے ساتھیوں کی اکثریت نے انہیں روک دیا۔
وکیل حامد خان کا نقطہ نظر ہے کہ سپریم کورٹ کے قوانین تبدیل نہیں کیے گئے ہیں۔ قوانین کے مطابق وہی بینچ اپیل سنے گا جس نے پہلے اس معاملے پر فیصلہ دیا تھا اور ایسے کیسز کو سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے ذریعے نمٹایا جا سکتا ہے۔ حامد خان کا کہنا ہے کہ ''آئین کا آرٹیکل 188، جو نظرثانی درخواستوں سے متعلق ہے، تبدیل نہیں کیا گیا۔ لہٰذا نظرثانی اپیلوں سے متعلق پرانے قوانین ہی لاگو رہیں گے۔ مستقبل میں آئینی کیسز کے لیے آئینی بینچز اور متعلقہ کمیٹی بنائی گئی ہے۔‘‘
آئین کے آرٹیکل 188 میں کہا گیا ہے، ''سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ کسی بھی فیصلے یا اپنے جاری کردہ کسی بھی حکم پر [مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)] کے کسی ایکٹ اور سپریم کورٹ کے بنائے ہوئے کسی بھی قواعد کے تابع رہتے ہوئے نظر ثانی کر سکے۔‘‘