پشاور حملہ: بیسیوں زخمی ابھی زیر علاج، درجنوں کی سماعت متاثر
26 فروری 2023گزشتہ ماہ کے آخر میں پشاور میں پولیس کے ایک کمپاؤنڈ پر ایک خود کش عسکریت پسند کی طرف سے کیے جانے والے بڑے بم حملے میں مرنے اور زخمی ہونے والوں میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی تھی اور اس مسجد پر حملہ عین اس وقت کیا گیا تھا جب وہ نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔
حکام کے مطابق اس بم حملے میں مرنے والوں میں سے تین چوتھائی سے زیادہ پولیس اہلکار تھے جبکہ 165 اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔ کئی زخمیوں کو چند ہی روز تک علاج کے بعد ہسپتالوں سے فارغ کر دیا گیا تھا جبکہ بیسیوں ابھی تک زیر علاج ہیں۔
کیا پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کی طرف جا رہا ہے؟
شروع میں بتایا گیا تھا کہ اس طاقت ور بم دھماکے کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے 50 سے زائد زخمیوں کی قوت سماعت بھی متاثر ہو ئی تھی۔ ان میں سے 15 سے زائد کو بعد ازاں ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی جبکہ 35 پولیس اہلکار ایسے تھے، جن کو شدید متاثر ہونے کی وجہ سے علاج جاری رکھنے کا طبی مشورہ دیا گیا تھا۔
آج اس خود کش بم حملے کے تین ہفتے سے بھی زائد عرصے بعد مجموعی طور پر بیسیوں پولیس اہلکار ایسے ہیں جن کا علاج ابھی تک جاری ہے جبکہ درجنوں افراد ایسے بھی ہیں جن کی قوت سماعت اس حملے کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
طبی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے کان، ناک اور گلے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر عبدالستار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے بم دھماکوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صوتی لہریں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ انسانی کان عموماﹰ انہیں برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے دھماکوں کی آوازیں خاص طور پر کان کے درمیانی حصے کو متاثر کرتی ہیں۔ ایسے واقعات میں اگر کان کا پردہ پھٹ بھی جائے تو زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن کان کے اندرونی حصے کے لیے دھماکے کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ متاثرہ فرد کی قوت سماعت مختصر یا طویل مدت کے لیے بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔‘‘
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مزید حملوں کی دھمکی
ڈاکٹر عبدالستار نے بتایا کہ پشاور پولیس لائن کی مسجد پر بم حملے کے متاثرین کے ساتھ بھی یہی ہوا، ''یہ متاثرین دھماکے کی جگہ کے بہت ہی قریب تھے۔ اسی لیے ان میں سے متعدد کو طویل المدتی بنیادوں پر اپنا علاج جاری رکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔‘‘
ایسے زخمی یا متاثرہ پولیس اہلکار ابھی تک دوبارہ اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نہیں ہو سکے اور ڈاکٹروں نے انہیں دوران علاج آرام کا مشورہ دیا ہے۔
زیر علاج متاثرین
اس بم حملے سے متاثر ہونے والے ایک نوجوان عزیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب یہ بم دھماکہ ہوا، میں کنٹین میں تھا اور مسجد جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بہت زور دار دھماکے نے مجھے اتنا خوف زدہ کر دیا تھا کہ پھر مجھے کچھ بھی دکھائی یا سنائی نہ دیا۔ اس دن سے میری نیند اڑ چکی ہے۔‘‘
اس نوجوان نے کہا، ''میں پولیس لائن کی کنٹین میں کام کرتا ہوں، جو مسجد کے متاثرہ برآمدے کے بالکل قریب ہی ہے۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ میرے دونوں کانوں کے اندرونی حصے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے مجھے دوائی بھی لکھ دی اور نیند کی گولیاں بھی۔ اب مجھے پہلے کی طرح سنائی نہیں دیتا اور میں خود بھی اونچی آواز میں بولنے لگا ہوں۔‘‘
مالی امداد
پولیس لائن دھماکے میں شدید زخمی ہونے والے اور شعبہ اطلاعات کے اہلکار منصف خان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ڈاکٹروں کے مطابق میری ریڑھ کی ہڈی کے دو مہروں میں فرق آ گیا ہے۔ اس کا علاج جاری ہے۔ ایمرجنسی میں تو جو علاج تھا، وہ ہوگیا۔ اب لیکن میں اپنا علاج ایک ڈاکٹر سے نجی طور پر کروا رہا ہوں اور اس کا خرچ اپنی جیب سے ادا کر رہا ہوں۔‘‘
خیبر پختونخوا: خفیہ اطلاعات پر سکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی، بارہ دہشت گرد ہلاک
منصف خان نے بتایا، ''میرے سمیت کئی متاثرہ اہلکاروں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ نجی طور پر علاج کرانا انتہائی مہنگا ہے۔ مجھے ضرورت ہے کہ محکمہ علاج کے لیے مجھے کچھ رقم ایڈوانس دے یا میری مالی مدد کرے کیونکہ مجھے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو بھاری فیسیں دینا پڑ رہی ہیں۔‘‘
پولیس حکام کا ہر قسم کے تعاون کا دعویٰ
خیبر پختونخوا پولیس کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ وہ پولیس لائن بم حملے کے زخمیوں اور متاثرین کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔
پشاور پولیس کی شہداء اور غازی برانچ کے انچارج سمیع اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بم دھماکے کے جو زخمی ابھی تک ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، سرکاری ہسپتال میں جو ادویات موجود ہوں، وہ انہیں مہیا کی جاتی ہیں۔ جو موجود نہ ہوں، وہ وہاں تعینات پولیس اہلکار فوراﹰ مہیا کر دیتے ہیں۔‘‘
پشاور بم دھماکہ: خود کش حملہ آور پولیس کی وردی میں تھا
سمیع اللہ نے کہا، ''یہ تمام انتظامات اور اقدامات پولیس کا ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ مرحلہ وار مکمل کرتا ہے۔ زخمیوں کو حکومت کی جانب سے ایک ایک لاکھ روپے اور شدید زخمی اہلکاروں کو پانچ پانچ لاکھ روپے ایک باقاعدہ طریقہ کار کے تحت دیے جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ہلاک شدگان میں سے ہر ایک کے لواحقین کو بھی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ پیکج کے تحت امدادی رقوم کی فراہمی کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔