1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی، پانچ جنگجو ہلاک

22 فروری 2020

پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مطابق گزشتہ شب پشاور کے نواح میں کی گئی ایک کارروائی کے دوران پانچ جنگجو مارے گئے۔ حکام کے مطابق ایک اور آپریشن کے دوران دو جنگجوؤں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3YBXn
Pakistan Armee | Training vor Weihnachten
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستانی پولیس کے انسداد دہشت گردی سے متعلق ادارے کے ایک سینیئر افسر طاہر خان نے بتایا کہ پشاور کے نواحی علاقے متھرا میں جمعہ 21 فروری کی شب کیے گئے ایک آپریشن کے دوران پانچ جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔ طاہر خان کے مطابق شدت پسندوں کے کمپاؤنڈ سے خود کش جیکٹوں سمیت دیگر نوعیت کا اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔

خیبر پختونخوا پولیس کے افسر نے دعویٰ کیا کہ مارے گئے پانچوں افراد کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے تھا۔

پاکستان ‘گرے لسٹ‘ میں ہی رہے گا، ایف اے ٹی ایف

انسداد دہشت گردی سے متعلق پولیس کے ادارے کے ایک اور افسر محمد اجمل نے بتایا کہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ایک اور آپریشن کے دوران دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ محمد اجمل کے مطابق گرفتار کیے گئے دونوں شدت پسند پاکستانی طالبان کے سجنا گروپ کے کمانڈر تھے۔

یہ کارروائی جنوبی وزیرستان کے قریبی ضلع ٹانک میں کی گئی۔ جنوبی وزیرستان ماضی میں پاکستانی طالبان کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں 85 فیصد کمی

حالیہ برسوں کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف متعدد آپریشن کیے ہیں۔ پاکستانی حکومت متعدد مرتبہ یہ دعویٰ بھی کر چکی ہے کہ ان علاقوں سے شدت پسندوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے تاہم اس کے باوجود شدت پسندوں کی کارروائیاں جاری رہی ہیں۔

تبصرہ: جرمنی کے دل پر ’نفرت کا وار‘

شمال مغربی پاکستانی علاقوں میں افغانستان کی سرحد کے قریب بسنے والے شدت پسندوں کے اکثر اوقات سرحد پار بھی روابط ہوتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت بھی جاری رہتی ہے۔ پاکستان کے مطابق اس وجہ سے بھی سکیورٹی فورسز کو شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

پاکستانی تھنک ٹینکس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں 85 فیصد کمی آئی ہے۔ سن 2009 میں دہشت گردی کے قریب دو ہزار واقعات پیش آئے تھے جب کہ سن 2019 کے دوران ایسے واقعات کی تعداد ڈہائی سو کے قریب رہی تھی۔

ش ح / ا ب ا (اے پی)