پشاور چیک پوسٹ خود کُش دھماکے میں تیرہ افراد ہلاک
19 جنوری 2016اس حملے کی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی پولیٹکل انتظامیہ نے بھی تصدیق کی ہے۔ پشاور پولیس کے سربراہ مبارک زیب خان کے مطابق ’یہ ایک خود کُش حملہ تھا، جس میں حملہ آور نے سکیورٹی کی ایک چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا ہے‘۔ جمرود چیک پوسٹ پشاور اور خیبر ایجنسی کے سنگم پر واقع ہے، جہاں قبائلی علاقوں میں داخل ہونے والوں کی نگرانی خاصہ دار فورسز جبکہ پشاور میں داخل ہونے والوں کی نگرانی پشاور پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
یہاں موجود عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اس چیک پوسٹ پر رش کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں ہر وقت گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار نے یہاں آ کر سکیورٹی چیک پوسٹ کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا دیا، جس سے چیک پوسٹ میں موجود سکیورٹی افسران سمیت کئی دیگر اہلکار بھی جان بحق ہو گئے۔
جمرود چیک پوسٹ پر ہونے والے اس خود کش حملے میں جان بحق ہونے والوں میں چھ سکیورٹی اہلکار، ایک خاتون، ایک بچہ اور ایک قبائلی صحافی بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں کو حیات آباد میڈیکل کمپلکس پہنچایا گیا، جہاں ان میں سے سات کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
سکیورٹی فورسز خیبر ایجنسی میں سات سال سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں۔ اس دوران پہلے خیبر ون اور آج کل خیبر ٹو کے نام سے آپریشن جاری ہے۔ اس آپریشن میں خیبر ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے زیادہ تر ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تاہم اس سلسلے میں جب تجزیہ نگار اور قبائلی اُمور کے ماہر شمس مومند سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا:’’یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دہشت گرد صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ یہ پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔ گذشتہ کئی دنوں سے ان دھماکوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف گروپس یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابھی وہ کمزور نہیں ہوئے۔ سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہوئے وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔‘‘
شمس مومند کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات پر ان واقعات سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ طالبان بڑا اور مضبوط گروپ ہے اور اگر چار فریقی اتحاد کے مذاکرات میں فریق کسی نتیجے پر پہنچ گئے تو باقی گروپوں کی کاروائیاں یقیناً کم ہو سکتی ہیں اور اگر افغانستان میں امن قائم ہو گیا تو پاکستان میں بھی امن آ سکتا ہے لیکن ایسا نہ ہوا تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں، جس طرح کہ گزشتہ چند دنوں سے بلوچستان، پختونخوا، قبائلی علاقوں اور افغانستان میں ان واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے‘۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک طرف پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے کوشاں ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان اپنے مختلف علاقوں میں داعش کے نام سے ہونے والی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں سامنے آنے والے اس گروپ کے متعدد لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پشاور سمیت پختونخوا اور پنجاب کے متعدد شہروں ایسے افراد کے خلاف آپریشن کیے جا رہے ہیں۔