پشاور کی عدالت میں توہین مذہب کا ملزم قتل
29 جولائی 2020پولیس کے مطابق مقتول طاہراحمد نسیم پشاور کے نواحی علاقہ اچینی کا رہائشی تھا۔ ان کے خلاف سال دو سال پہلے تھانہ سربند میں توہین رسالت کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا، جس کے بعد انہیں دفعہ 295 اے بی اور سی سمیت دیگر دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کے خلاف ملک اویس خان کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور کچھ مذہبی شخصیات نے بھی ان کے خلاف اپنی منفی رائے دی تھی۔
وہ آج پشاور کے ایڈیشنل سیشن جج شوکت علی کی عدالت میں پیشی پر موجود تھے جب انہیں قتل کردیا گیا۔
واقعے کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے احاطہ عدالت میںپہنچ کر ملزم کو حراست میں لے لیا۔ پشاور پولیس کے سربراہ محمد علی گنڈا پور نے میڈیا کو بتایا کہ "ملزم کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔"
بعض اطلاعات کے مطابق مقتول کا تعلق احمدی عقیدے سے تھا۔ لیکن جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ وہ پیدا ضرور ایک احمدی خاندان میں ہوئے لیکن انہوں نےکئی سال پہلے اس عقیدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
ان کے مبینہ قاتل خالد ولد عبدالغنی کا سوشل میڈیا پر ایک کلپ جاری ہوا ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ مقتول نے اس کے سامنے توہین رسالت کی ہے جس پر اسے گولی ماری گئی۔ پولیس کے مطابق قاتل پشاور کے علاقہ بورڈ بازار کا رہائشی ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے بھری عدالت میں طاہراحمد نسیم کو چھ گولیاں ماریں۔
تھانہ شرقی کے پولیس افسر کے مطابق یہ توہین رسالت کا کیس ہے اس لیے اعلی افسران کی مشاورت کے بعد ہی ایف آئی آر درج کی جائے گی۔
معروف قانون دان ملک محمد اجمل خان کے مطابق اس طرح کے واقعات کی بڑی وجہ ناقص تفتیش اور انصاف میں تاخیر ہوتی ہے۔ اگر پولیس کی تفتیش موثر ہوتی اور عدالتوں کی جانب سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہ ہوتی تو کوئی بھی قانون ہاتھ میں نہ لیتا۔
مقتول طاہر احمد نسیم کے خلاف مقدمہ ڈھائی سال تک زیر سماعت رہا۔ انہوں نے اس دوران ضمانت پر رہائی کی درخواست بھی دی تھی جو مسترد کی گئی۔ یہ کیس اب اپنے آخری مراحل میں تھا جب ان کا عدالت میں قتل کردیا گیا۔
پولیس اس بات کی بھی تحقیات کررہی ہے کہ ملزم عدالت میں بھاری سیکورٹی کے باجود اسلحے سمیت کس طرح داخل ہوا ۔