پشاور کے نواح میں خود کش حملہ، تین پولیس اہلکار ہلاک
31 جنوری 2011صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سراج احمد نامی ایک اعلیٰ اہلکار نے بتایا کہ اس حملہ آور نے، جس کی عمر بیس سال سے کم تھی، اس پولیس وین پر خودکش بم حملہ اس وقت کیا، جس اس میں سوار سکیورٹی اہلکار پشاور کے مضافات میں معمول کے حفاطتی گشت پر تھے۔
سراج احمد کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ راشد خان، ان کا ایک گارڈ اور ڈرائیور شامل ہیں جبکہ اس دھماکے میں کئی دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ حملہ آور پیدل آ رہا تھا، جس نے پولیس کی اس گشتی وین کے پاس پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
موقع پر موجود ایک پولیس افسر عمر گل نے تصدیق کی کہ یہ بم حملہ ایک خود کش حملہ تھا، جس کا ملزم ایک نوجوان لڑکا تھا، جو خود بھی اس حملے میں مارا گیا اور جس کا سر دھماکے کی جگہ کے قریب ہی سے مل گیا ہے۔
دھماکے کے فوری بعد موقع پر پہنچنے والے بم ڈسپوزل یونٹ کے ارکان نے بتایا کہ حملہ آور نے اپنے جسم کے ساتھ چھ اور سات کلو کے درمیان دھماکہ خیز مواد باندھ رکھا تھا، جو تین ہلاکتوں کے علاوہ پولیس وین کی مکمل تباہی کا سبب بھی بنا۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شمال مغربی حصے میں طالبان کے مسلح حملے اور بم دھماکے، جن میں زیادہ تر سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تب سے اور بھی تواتر سے ہونے لگے ہیں، جب سے افغانستان میں امریکی قیادت میں عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائیوں سے بچتے ہوئے القاعدہ اور طالبان کے سینکڑوں جنگجو ان علاقوں میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں جولائی 2007 میں لال مسجد پر کیے گئے فوجی آپریشن کے بعد سے اب تک ملک بھر میں کیے گئے بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں چار ہزار کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔
پاکستانی فوج کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نے گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح کارروائیاں کرتے ہوئے کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم طالبان شدت پسندوں کے حملے ابھی تک ختم نہیں ہو سکے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان