پشتو فلم ساز اپنی روایتی ثقافتی فلموں کے فروغ کے لئے کوشاں
17 نومبر 2010طالبان اور القاعدہ کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے سے، جہاں مدرسوں میں نوجوان مردوں کو مقدس جنگ یا جہاد کی تربیت دی جاتی ہے، تعلق رکھنے والے پشتون اداکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ثقافتی ورثے کے بے ضرر پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں فروغ دینا چاہتے ہیں۔
سفید شلوار قمیض اور ٹوپی پہنے اداکار اور ہدایت کار عجب گُل کا کہنا ہے کہ وہ سینما کے ذریعے اپنی جنگجو ثقافت کو فاخرانہ انداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں اور اُن کا مقصد ہے نوجوان مردوں کو عسکریت پسند ملاؤں کے نرغے سے بچانا تاکہ وہ آسانی سے ان کے ورغلانے میں نہ آئیں۔
45 سالہ سابق فلمی اداکار کہتے ہیں ’ نوجوان نسل ناخواندہ اور بے روزگار ہے۔ اس کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ انہیں کوئی نہ کوئی مصروفیت چاہیے۔ اگر ایسے نوجوانوں پر توجہ نہیں دی گئی اور ان کی دلچسپی کے مطابق انہیں تفریحی مواقع فراہم نہ کیے گئے تو یہ آخر کار دہشت گرد بن جائیں گے۔'
پشتو فلم ساز اس وقت مسلم انتہا پسندوں سے خوف زدہ ہوئے بغیر فلم سازی کے زنگ آلود آلات کو دوبارہ بروئے کار لانے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ ان کی بہت زیادہ خواہش ہے کہ خسارے کی شکار اور تباہ شدہ اپنی فلمی صنعت کو دوبارہ زندہ کریں۔ یہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی فلم انڈسٹری مالی بحران کا شکار ہے۔ تاہم ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔
پہلی پشتو فلم 1930 میں ہندوستان میں بنی تھی۔ ایک صوفی عشقیہ داستان سے ماخوذ اس فلم کا نام تھا ’لیلیٰ مجنوں‘۔
1970 کے عشرے میں جس وقت پشتو فلمی صنعت عروج پر تھی، متعدد ایسی کلاسیکی ثقافتی فلمیں بنیں جو روایتی لوک کہانیوں سے ماخوذ تھیں۔
1980 میں تاہم پشتو فلموں کا ایک نیا رجحان سامنے آیا۔ نئے طرز کی یہ فلمیں ناقدین کی خواہش کے مطابق محض کمرشل مقاصد کے لئے بنائی جانے لگیں۔ فلمساز عجب گُل اور اُن کی فلموں میں کام کرنے والے فنکاروں کا کہنا ہے کہ اس نئے انداز نے پشتو فلم انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچایا۔
ان کا کہنا ہے کہ 80 کی دہائی سے محض بالی ووڈ کی نقل کے طور پر ایسی فلمیں بن رہی ہیں جنہیں جنسی مناظر، رقص اور بہت زیادہ رنگین لباس، بہت زیادہ میک اپ وغیرہ سے پرکشش بنانی کی کوشش کی جاتی ہے۔ پشتو فلمسازوں کا کہنا ہے کہ اس نئے ٹرینڈ نے پاکستانی روایتی فلمی ثقافت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
عجب گُل نے بالی ووڈ کو پشتو سنیما کا حریف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منظم طریقے سے بالی ووڈ کلچر کو پاکستان میں رائج کرکے پاکستان کی فلمی ثقافت کے نقوش مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کلاسیکی ثقافتی فلمیں بنانے میں بالی ووڈ پشتو فلموں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا مزید یہ کہ اس سلسلے میں بھارتی خفیہ سروس RAW بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: افسر اعوان