1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشتو فلم ساز اپنی روایتی ثقافتی فلموں کے فروغ کے لئے کوشاں

17 نومبر 2010

محبت اور انتقام کے موضوعات کو سنسنی خیز اور فحش مناظر میں لپیٹ کر فلمیں بنانے والے پشتو فلم ساز صوبے خیبر پختونخواہ سے عسکریت پسندی کے خاتمے اور ثقافتی عہد کی واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/QBDU
پختونوں کا روایتی فلمی انداز

طالبان اور القاعدہ کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے سے، جہاں مدرسوں میں نوجوان مردوں کو مقدس جنگ یا جہاد کی تربیت دی جاتی ہے، تعلق رکھنے والے پشتون اداکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ثقافتی ورثے کے بے ضرر پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں فروغ دینا چاہتے ہیں۔

سفید شلوار قمیض اور ٹوپی پہنے اداکار اور ہدایت کار عجب گُل کا کہنا ہے کہ وہ سینما کے ذریعے اپنی جنگجو ثقافت کو فاخرانہ انداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں اور اُن کا مقصد ہے نوجوان مردوں کو عسکریت پسند ملاؤں کے نرغے سے بچانا تاکہ وہ آسانی سے ان کے ورغلانے میں نہ آئیں۔

Pushto film Werbungin Peshawar
پشاور میں نصب ایک فلم بورڈ

45 سالہ سابق فلمی اداکار کہتے ہیں ’ نوجوان نسل ناخواندہ اور بے روزگار ہے۔ اس کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ انہیں کوئی نہ کوئی مصروفیت چاہیے۔ اگر ایسے نوجوانوں پر توجہ نہیں دی گئی اور ان کی دلچسپی کے مطابق انہیں تفریحی مواقع فراہم نہ کیے گئے تو یہ آخر کار دہشت گرد بن جائیں گے۔'

پشتو فلم ساز اس وقت مسلم انتہا پسندوں سے خوف زدہ ہوئے بغیر فلم سازی کے زنگ آلود آلات کو دوبارہ بروئے کار لانے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ ان کی بہت زیادہ خواہش ہے کہ خسارے کی شکار اور تباہ شدہ اپنی فلمی صنعت کو دوبارہ زندہ کریں۔ یہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی فلم انڈسٹری مالی بحران کا شکار ہے۔ تاہم ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔

پہلی پشتو فلم 1930 میں ہندوستان میں بنی تھی۔ ایک صوفی عشقیہ داستان سے ماخوذ اس فلم کا نام تھا ’لیلیٰ مجنوں‘۔

1970 کے عشرے میں جس وقت پشتو فلمی صنعت عروج پر تھی، متعدد ایسی کلاسیکی ثقافتی فلمیں بنیں جو روایتی لوک کہانیوں سے ماخوذ تھیں۔

1980 میں تاہم پشتو فلموں کا ایک نیا رجحان سامنے آیا۔ نئے طرز کی یہ فلمیں ناقدین کی خواہش کے مطابق محض کمرشل مقاصد کے لئے بنائی جانے لگیں۔ فلمساز عجب گُل اور اُن کی فلموں میں کام کرنے والے فنکاروں کا کہنا ہے کہ اس نئے انداز نے پشتو فلم انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچایا۔

Plakat zum Film Ram Balram (1980) aus dem Band The Art of Bollywood vom Taschen-Verlag
بالی ووڈ فلموں کے طرز پر اب پاکستان میں بھی فلمیں بننے لگی ہیںتصویر: Taschen-Verlag

ان کا کہنا ہے کہ 80 کی دہائی سے محض بالی ووڈ کی نقل کے طور پر ایسی فلمیں بن رہی ہیں جنہیں جنسی مناظر، رقص اور بہت زیادہ رنگین لباس، بہت زیادہ میک اپ وغیرہ سے پرکشش بنانی کی کوشش کی جاتی ہے۔ پشتو فلمسازوں کا کہنا ہے کہ اس نئے ٹرینڈ نے پاکستانی روایتی فلمی ثقافت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

عجب گُل نے بالی ووڈ کو پشتو سنیما کا حریف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منظم طریقے سے بالی ووڈ کلچر کو پاکستان میں رائج کرکے پاکستان کی فلمی ثقافت کے نقوش مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کلاسیکی ثقافتی فلمیں بنانے میں بالی ووڈ پشتو فلموں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا مزید یہ کہ اس سلسلے میں بھارتی خفیہ سروس RAW بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں