پلوامہ حملہ :ذمہ دار کون؟
15 فروری 2019پاکستان اور بھارت کے زیرِ اتنظام رہنے والے کشمیریوں کا کہنا ہے گو کہ پاکستان کا کشمیر کی عسکریت پسندی میں ہاتھ رہا ہے لیکن بھارتی جارحانہ اقدامات بھی کشمیر میں عسکریت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں اور ایسے حملے بھارتی ریاستی جبر کا ردِ عمل ہیں۔
واضح رہے کہ کل بروز جمعرات کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری پاکستانی عسکریت پسند تنظیم جیشِ محمد نے قبول کر لی ہے۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے سخت ردِعمل کا انتباہ دیا ہے اور اسلام آباد کو دھمکی دی ہے کہ اس کو سفارتی سطح پر تنہا کیا جائے گا۔ کئی دہائیوں تک پاکستان کے اتحادی رہنے والے امریکاہ اہلکار، جو اسلام آباد کی مدد سے طالبان سے مذاکرات کر رہے ، نے بھی پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور دہشت گردوں کو نہ محفوظ پناہ گاہیں دیں اور نہ ہی ان کی حمایت کرے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھارتی الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ جب کہ پاکستانی تجزیہ نگار اس حملے کے پیچھے نئی دہلی کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شیعب نے اس حملے کا الزام بھارتی جاسوسی تنظیم را پر لگاتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ اگر بھارت اس طرح ظلم کرے گا تو بہت سارے کشمیری نوجوان ایسی ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کو ترجیح دیں گے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی نے ایسے ہی کسی کشمیری نوجوان کو اس کام کے لیے استعمال کیا تاکہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے اور اس میں ہونے والی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کو روکا جائے، اسے سفارتی طور پر تنہا کیا جائے، اس حملے کو جواز بنا کر کشمیری عوام کو کچلا جائے، کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم و ستم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا جائے اور فاٹا میں گڑ بڑ کر کے پاکستان کی توجہ افغان امن عمل سے ہٹائی جائے۔‘‘
بی جے پی پر الزام رہا ہے کہ وہ پاکستان اور مسلم مخالف ماحول پیدا کر کے ووٹ حاصل کرتی ہے۔ جنرل امجد کا دعویٰ ہے کہ مودی ایسے حملے کروا کر مسلم مخالف ماحول پیدا کر رہے ہیں، ’’میری تو یہ پیشن گوئی ہے کہ اس نوعیت کے حملے سکھوں پر بھی کرائے جا سکتے ہیں تا کہ کرتار پور والے مسئلے پر جو پاکستان نے سکھوں کی ہمدردیاں حاصل کیں ہیں، انہیں خراب کیا جائے۔‘‘
لیکن کئی غیر جانبدار تجزیہ نگار جنرل امجد کے اس الزام کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی جہادی تنظیموں نے نہ صرف بھارت اور اس کے زیرِ اتنظام کشمیر میں حملے کروائے ہیں بلکہ ان کی علیٰ اعلان ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ تاہم کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح کی حمایت پاکستان نے سن اٹھاسی سے لے کر تقریبا دو ہزار چودہ تک کی۔ بھارت کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے کے بعد کسی بھی طرح کی مدد ممکن نہیں ہے۔
بھارت نے گزشتہ کچھ برسوں میں باڑھ لگانے کا عمل تیز کیا ہے، جس کی وجہ سے مداخلت کم ہوئی ہے۔ ساتھ ایشیاء ٹیڑرازم پورٹل کے مطابق دو ہزار چودہ سے دو ہزار انیس تک (چودہ فروری تک )بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر میں پندرہ سو بائیس ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔ جب کہ سن 1988سے سن 2013تک تقریبا 43455 ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان میں تجزیہ نگار ان گرتی ہوئی ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی مداخلت کم ہوئی ہے۔
تاہم بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار طاہر احمد کا کہنا ہے کہ سن اٹھاسی کے مقابلے میں پاکستان کی طرف سے مداخلت کم ہوئی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوئی، ’’ہمار ے علاقے کرن، مچل، تنگدار اور گریز کی سرحد پاکستان کے نیلم ڈسٹرکٹ سے ملتی ہے اور مداخلت کا اس وقت یہ ہی سب سے بڑا راستہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا اری علاقہ ان کے چکوٹھی سے ملحق ہے اور ناوگام لیپا وادی سے ملتا ہے۔ اگر آپ ان تمام راستوں کو جا کر دیکھیں تو ممکن ہی نہیں ہے کہ وہاں باڑ لگائی جائے۔ یہ بہت دشوار گزار پہاڑی علاقے ہیں، جہاں سے پاکستان ہتھیار اور بارود بھیج رہا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو ہوا رہا ہے۔ چالیس ہزار سے زائد کشمیری اٹھاسی سے اب تک ہلاک ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں بھارتی سیکورٹی فورسز یا پولیس کی بہت کم تعداد ہے۔ اصل میں تو زیادہ تر عام شہری ہیں۔ ہم اس عسکریت پسندی سے بیزار ہیں۔‘‘
تاہم طاہر احمد اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ موجودہ عسکریت پسندی کی لہر کی بہت بڑی ذمہ دار نئی دہلی سرکار ہے، ’’پاکستان مالی اور لوجسٹک سائیڈ پر عسکریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے لیکن اب پاکستانی عسکریت پسند یہاں نہیں آ رہے۔ بھارتی فوج کی طرف سے طاقت کا استعمال لوگوں کو پاکستان کے قریب کر رہا ہے اور نوجوان نسل عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو رہی ہے۔‘‘
کشمیر کی خود مختاری پر یقین رکھنی والی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے پاکستان چیپٹر کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی بھی نئی دہلی کو موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان کی مداخلت کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن آپ دیکھیں بھارت نے دو ہزار سولہ سے لے کر اب تک سینکڑوں کشمیریوں کو ہلاک کیا ہے۔ دس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ نئی دہلی خود سیاسی حل کا راستہ بند کر رہا ہے، جس سے جنگجوؤں اور عسکریت پسندوں کو فائدہ ہوگا۔ تو موجودہ صورتِ حال میں جہاں پاکستان کا تھوڑا بہت ہاتھ ہے وہیں بھارتی ریاست کا بے دریغ طاقت کا استعمال بھی دہشت گردی کی بہت بڑی وجہ ہے۔‘‘