پناہ کے قوانین کی خلاف ورزی: یورپی کمیشن کی جرمنی کو وارننگ
10 فروری 2016یورپی یونین کو مہاجرین کے بحران سے نمٹنے میں مسائل کا سامنا ہے۔ بلاک کے انتظامی ادارے، یورپی کمیشن نے یونین کے رکن ممالک پر الزام لگایا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے متفقہ طور پر طے شدہ حل پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔
میرکل کی کابینہ پناہ کے نئے اور سخت قوانین پر متفق
جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس اورامُوپولوس کا کہنا تھا، ’’ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر ملک اپنی ذمہ داری نبھائے۔ ہمیں انسانوں سے نمٹنا ہے، ایسے انسانوں سے جو یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔‘‘
یورپی یونین ان دنوں مہاجرین کے بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے تمام رکن ممالک کو ایک صفحے پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کمیشن نے اس ضمن میں تادیبی عمل بھی شروع کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں ضوابط پر عمل نہ کرنے والے ممالک کو یورپی عدالت انصاف بھاری جرمانے عائد کر سکتی ہے۔
اسی سلسلے میں آج یورپی کمیشن نے جرمنی، فرانس، ایسٹونیا، یونان، لٹویا، اٹلی اور سلووینیا کے خلاف تادیبی کارروائی کو آگے بڑھانے کی وارننگ جاری کی ہے۔ یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا ممالک نے تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستوں اور رجسٹریشن مراکز میں یونین کے متفقہ قوانین کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا ہے۔
کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاک کے اراکین میں سیاسی پناہ کے قوانین کی بابت پائے جانے والے اختلافات کے باعث تارکین وطن کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کمیشن کی جانب سے تیار کی گئی ایک رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ مجموعی طور پر یونین کے اراکین کی جانب سے مہاجرین کا بہاؤ روکنے کے لیے مجوزہ اقدامات پر عمل درآمد کی رفتار سست روی کا شکار ہے۔
دیمیتریس اورامُوپولوس کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ ہم پہلے ہی بہت سارا وقت ضائع کر چکے ہیں اور یہ بات ناقابل قبول ہے۔‘‘
اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ تارکین وطن کو رکن ممالک میں تقسیم کے منصوبے کے تحت یونان سے ایک لاکھ پناہ گزینوں کو منتقل کیا جانا تھا تاہم ابھی تک صرف 497 افراد کو ہی منتقل کیا جا سکا ہے۔
اورامُوپولوس نے آج اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے وزرائے داخلہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’مہاجرین کی منتقلی کے منصوبے پر عمل درآمد ہر رکن پر لازمی ہے اور انہیں فوری طور کوٹہ سسٹم پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘
یورپی کمیشن نے ترکی پر بھی زور دیا کہ وہ مہاجرین کا بہاؤ روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ یونین اور ترکی کے مابین اس ضمن میں طے پانے والے معاہدے پر بھی ابھی تک پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہو پایا ہے۔
اورامُوپولوس کا اس ضمن میں کہنا تھا، ’’انقرہ حکومت اگر چاہے تو وہ اپنی سرزمین پر سرگرم انسانوں کے اسمگلروں کو روک سکتی ہے۔‘‘