پنجاب اسمبلی میں منظور کیا گیا ہتک عزت قانون کیا ہے؟
21 مئی 2024پنجاب حکومت نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ 'ہتک عزت کے قانون‘ پر مشاورت کرنے اور اسے جلد بازی میں منظور نہ کرنے کے وعدے کے تھوڑی ہی دیر بعد عجلت میں اور بغیر کسی ضروری مشاورت کے پاس کروا لیا۔ کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر سید ارشاد احمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں پنجاب کی وزیر اطلاعات نے ہتک عزت کے قانون کے مسودے پر دیگر صحافتی تنظیموں کے ساتھ مشاورتی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی، ''اس پر میں نے عظمیٰ بخاری سے کہا کہ دیکھ لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم مشاورت کے لئے آئیں اور آپ ہمیں مشاورت کا کہہ کر فوراً قانون منظور کروا لیں۔ اس پر پنجاب کی وزیر اطلاعات نےکہا کہ آپ اس طرح کیوں سوچتے ہیں، ہمارے درمیان کیا کوئی اعتماد کا فقدان ہے؟‘‘
جب صحافتی تنظیموں کے ساتھ اجلاس شروع ہوا تو وہاں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر، پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل اور پنجاب کی وزیر اطلاعات، سب نے اس بل کو فورا منظور نہ کرنے، صحافیوں سے تجاویز لینے اور مشاورت کے بعد متفقہ ڈرافٹ منظور کرنے کا وعدہ کیا۔ سید ارشاد احمد عارف مزید کہتے ہیں، ''جب ہم اس اجلاس کے بعد واپس آ رہے تھے تو راستے میں ہمیں پتہ چلا کہ ہتک عزت کا قانون منظور کروا لیا گیا ہے۔ حکومت نے صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن کی طرف سے پیش کئے جانے والے تحفظات بھی نظر انداز کر دیے۔ ‘‘
پاکستان میں ایکس تک رسائی مشکل، وی پی این ڈاؤن لوڈز میں اضافہ
سیاسی رہنما مصطفی نواز کھوکھر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پنجاب میں ہتک عزت کے قانون کے بعد ٹک ٹاکرز، سوشل میڈیا حتی کہ وٹس ایپ میسجز پر بھی لوگوں پر جرمانہ کیا جا سکے گا، ''یہ ایک کالا قانون ہے، تنقید سے خائف حکومت اب شہریوں کو آڑے ہاتھوں لے گی۔‘‘
پنجاب میں انسانی حقوق کے اداروں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی تنظیموں نے اس بل کو آزادی اظہار پر ایک قدغن قرار دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس بل کے خلاف اسمبلیوں میں آواز اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ بل فیک نیوز کے خاتمے کے لئے لایا گیا ہے، اس سے سچی خبریں دینے والے صحافیوں کو کوئی خطرہ نہیں۔
اس بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہو گا، جس کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا۔ بل کا یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس، فیس بک، انسٹا گرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہو گا۔
کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر بھی اسی قانون کے تحت کارروائی ہو گی۔ ہتک عزت کے کیسز کے لیے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے، جو چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔
بل کے تحت 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ ہو گا، آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام کی صورت میں ہائی کورٹ کے بنچ کیس سننے کے مجاز ہوں گے۔ خواتین اور خواجہ سراؤں کو کیس میں قانونی معاونت کے لیے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت میسر ہو گی۔
سید ارشاد عارف کہتے ہیں کہ ملک میں ہتک عزت کا قانون پہلے سے موجود ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ نیا قانون اس لیے بنایا گیا ہے کہ پرانے قانون میں فیصلے تاخیر سے ہوتے تھے،''اب پراسیکوشن کی کمزوری یا عدلیہ میں تاخیر کی سزا میڈیا والے کیوں بھگتیں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں اور انتخابی ٹربیونلز میں مقدمات کے فیصلے مقررہ مدت میں نہیں ہو رہے، وہاں نئی قانون سازی کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہو رہی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمارا یہ بھی اعتراض ہے کہ میڈیا کے لیے خاص عدالتیں کیوں اور عدالتیں بھی ایسی، جہاں حکومت مرضی کے فیصلے لے سکے گی۔ نئے قانون میں ہتک عزت کی واضح تعریف موجود نہیں۔ ہر اس شخص کو تیس لاکھ تک جرمانے کی سزا مل سکے گی، جو ان کی نظر میں ہتک عزت والا کوئی مواد چھاپتا، لکھتا، اپ لوڈ کرتا یا تیار کرتا ہو گا۔‘‘
اس قانون کے مطابق اہم حکومتی و سرکاری شخصیات کے مقدمات ہائی کورٹ کی سطح کی عدالت میں چلائے جائیں گے۔ ارشاد عارف کے مطابق اس طرح کی قانون سازی صحافیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہو گی۔
لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تمام صحافتی تنظیمیوں نے اس وقانون کو مسترد کر دیا ہے اور وہ اس کے خلاف متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا اور عدالت سے بھی رجوع کیا جائے گا۔ منگل کے روز لاہور میں منعقد ہونے والے ملک کی بڑی صحافتی تنظیموں کے ایک اجلاس میں اس قانون کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور اجلاس میں ہونے والی ڈسکشن کے مطابق اگلے مرحلے پر حکومتی جماعتوں کی کوریج کا بائیکاٹ کرنے یا احتجاج کا دائرہ کار پھیلانے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کونسی قوتیں ہیں، جن کی خوشنودی کے لئے مسلم لیگ نون اس حد تک اتر آئی ہے۔
انسانی حقوق کے کمیشن نے ہتک عزت بل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بل کا مواد اور متن کئی حوالوں سے پریشان کن ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس بل میں ہتک عزت کے دعوؤں کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک متوازی ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر ہتک عزت کے ٹربیونلز بغیر کسی ٹرائل کے فوری طور پر 30 لاکھ روپے تک کے معاوضے کی ادائیگی کا عبوری حکم نامہ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔ یہ اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔