پنجاب میں فرقہ ورانہ دہشت گردی، تین گنا اضافہ
6 جولائی 2010ان اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں سال رواں کے پہلے چھ ماہ کے دوران فرقہ ورانہ دہشت گردی کے 49 واقعات پیش آئے جن میں 71 افراد لقمہ اجل بنے ۔ تاہم وزارت داخلہ کے اعدادو شمار میں یکم جولائی کو داتا دربار پر ہونے والے خود کش حملوں کے نتیجے میں پیش آنے والے نقصان کو شامل نہیں کیا گیا۔ ان حملوں میں43 افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے جبکہ 169افراد زخمی بھی ہوئے
فرقہ وارانہ دہشت گردی سے جڑے واقعات پر گہری نظر رکھنے والے انگریزی روزنامہ دی نیوز سے وابستہ صحافی عمر چیمہ کے مطابق پنجاب میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی جڑیں طالبان اور القاعدہ سے ملی ہوئی ہیں، "لشکرجھنگوی جیسی تنظیمیں القاعدہ اور طالبان کی حمایت یافتہ ہیں۔ طالبان اور سپاہ صحابہ کے آپس میں پرانے تعلقات ہیں۔ ریاض بسرا کافی عرصے تک افغانستان میں روپوش رہے اور اب بھی پنجابی طالبان کا طالبان اور القاعدہ کیساتھ رابطہ ہے۔"تھے۔
تاہم دوسری جانب مرکز میں حکمران پیپلز پارٹی اور پنجاب میں حکمران مسلم لیگ (ن) کے قائدین مسلسل ایک دوسرے پر کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی پشت پناہی کے الزامات لگا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت کا کہنا ہے کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کالعدم تنظیم سے تعلق ہے ۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان صدیق الفاروق کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی کے 25 رہنما کالعدم تنظیم کی حمایت سے جیت کر اسمبلی میں پہنچے ہیں۔
صدیق الفاروق کے مطابق کالعدم سپاہ صحابہ کی حمایت سے کامیاب ہونے والوں میں وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمودقریشی، وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ، وفاقی وزیر محنت وافرادی قوت سید خورشید شاہ، وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار سردار عبدالقیوم جتوئی، ثقافت کے وفاقی وزیر پیر آفتاب شاہ جیلانی، وزیرمملکت برائے داخلہ امور تسنیم نوازقریشی اور ڈپٹی سپیکر فیصل کریم خان کنڈی شامل ہیں۔
ادھر کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کے رہنما نہ صرف پنجاب بلکہ ا سلام آباد میں بھی آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ اس کالعدم تنظیم کے رہنما محمد احمد لدھیانوی نے ایک نجی نیوز ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے بعض وفاقی وزراء سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے 21 ارکان کو انتخابات جیتنے میں مدد دی۔ انہوں نے کہا، "ہماری جماعت کے ذمہ داروں نے PPP کے رہنماؤں کی انتخابی مہم چلائی ہے اور اس بات کے ثبوت موجود ہیں۔"
دریں اثناء وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ پیر کو وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں دہشتگردی کے خلاف قومی حکمت عملی پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنے اور انسداد دہشتگردی کے خلاف بنائے گئے ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کو فعال بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ منگل کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ اور خفیہ ایجنسیاں صوبائی حکومت کو اانسداد دہشت گردی کی روک تھام کے لئے خفیہ معلومات فراہم کریں گی، اور اس بارے میں میں جمعہ یا ہفتہ کے روز لاہور میں ایک اجلاس بھی ہوگا جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں رحمان ملک نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلہ پہلے بھی جاری ہے۔
رپورٹ : شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت : افسر اعوان