پنجاب کا نیا وزیر اعلٰی کون ہو گا؟
2 اپریل 2022صوبائی دارالحکومت لاہور میں نئے وزیر اعلٰی پنجاب کے انتخاب کے لیے سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ اس سے قبل سردار عثمان بزدار کا استعفٰی منظور کر کے کابینہ کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعلٰی پنجاب کے انتخاب کے موقعے پر لاہور میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
وزیر اعلٰی کا انتخاب کب اور کیسے؟
پنجاب کے وزیر اعلٰی کا انتخاب کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخاب اتوار کے روز پنجاب اسمبلی میں ہو گا۔ نیا وزیر اعلٰی منتخب ہونے کے لیے 271 کے ایوان میں 186 ووٹوں کی ضرورت ہوگی اگر دونوں امیدوار اس ہدف تک نہ پہنچ سکے تو پھر پولنگ دوبارہ ہو گی تاوقتیکہ کوئی امیدوار 186 ووٹ حاصل کر لے۔
وزارت اعلٰی کے امیدوار
پنجاب کی وزارت اعلٰی کے لیے اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نون کے رکن صوبائی اسمبلی حمزہ شہباز شریف اور پاکستان مسلم لیگ )ق( کے چوہدری پرویز الٰہی کے مابین ہوگا۔ حمزہ شہباز شریف کو پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے ۔ وہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔ حمزہ شہباز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے صاحبزادے اور سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے بھتیجے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی میدان میں اترے ہیں۔ ان کا تعلق چوہدری ظہور الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کے خاندان سے ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اس سے قبل چیف منسٹر پنجاب اور ڈپٹی پرائم منسٹر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ دس نشستوں والے چوہدری پرویز الٰہی کو ایک سو تراسی نشستوں والی پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔
جنوبی پنجاب صوبہ پھر موضوع بحث
نمبر گیم کیا کہتا ہے؟
پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 183 پاکستان مسلم لیگ نون 165 پاکستان مسلم لیگ ) ق( 10 پیپلز پارٹی 7 راہ حق پارٹی 1 اور آزاد امیدواروں کی تعداد 4 ہے۔ اس نمبر گیم کے مطابق بظاہر چوہدری پرویز الٰہی کی پوزیشن بہتر دکھائی دے رہی ہے لیکن ان کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی مخالفت کا سامنا ہے۔ منحرف ارکان کے ان گروپوں میں سے جہانگیر ترین گروپ کا کہنا ہے کہ ان کو 16 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے، جبکہ چھینہ گروپ کا دعوٰی ہے کہ ان کے ساتھ 14 ارکان ہیں اور علیم خان گروپ کا دعویٰ ہے کہ انہیں 30 کے قریب ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ ترین گروپ اور علیم گروپ کی طرف سے حمزہ شہباز کی حمایت کا امکان ہے جبکہ چھینہ گروپ پرویز الہٰی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے؟
حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے پنجاب کی وزارت اعلٰی کے دونوں امیدواروں کی طرف سے اپنی اپنی جیت کے دعووں کے باوجود بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ابھی کسی امیدوار کی جیت کے بارے میں حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں ہے۔ ہفتے کی سہ پہر ترین گروپ نے حمزہ شہباز شریف کی حمایت کا اعلان کیا لیکن چند ہی گھنٹے بعد ملنے والی اطلاعات کے مطابق ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے کچھ ارکان نے نئے رابطوں کے بعد چوہدری پرویز الہٰی کی طرف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
فیصلہ کون کرے گا؟
ویسے تو پنجاب اسمبلی کے ارکان ہی صوبے کے وزیراعلٰی کا انتخاب کرتے ہیں لیکن کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیراعلی پنجاب کے اس انتخاب میں پی ٹی آئی کے منحرف گروپ ہی فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ جو بھی فریق ان پر بہتر کنٹرول حاصل کر لے گا اسی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ )ن( لیگ کے ایک گروپ نے بھی چوہدری پرویز الٰہی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ پاکستان کی ساری بڑی جماعتیں اس قانون کی حامی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ارکان کی وفاداریاں تبدیل کروانے میں بھی پیش پیش ہیں۔
کیا عمران خان سیاسی بحران سے نکل پائیں گے؟
تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں؟
پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی تک کوئی حتمی اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کو اپنے ہی ارکان کی بغاوت کا سامنا ہے دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون میں ایک دھڑا موروثی سیاست کا مخالف ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وزارت عظمی اور وزارت اعلٰی ایک ہی گھر میں نہیں جانی چاہیئیں ۔ ان کے بقول پرویز الہٰی ایک ہی دن میں پہلے اپوزیشن کے امیدوار تھے لیکن دو گھنٹوں بعد وہ حکومتی امیدوار بن گئے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ترین گروپ کا مطالبہ مانتے ہوئے عثمان بزدار کو نہیں ہٹایا ہے بلکہ اپنی کرسی بچانے کے لیے انہیں گھر بھیجا ہے۔ سلمان غنی بتاتے ہیں کہ ملک تصادم کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اگرپنجاب اسمبلی میں دس نشستیں رکھنے والے پرویز الٰہی جیت بھی گئے تو انہیں اگلے دو ہفتوں میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ایک طرف پی ٹی آئی وفاداری بدلنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف سپریم کورٹ گئی ہوئی ہے لیکن دوسری طرف انہوں نے دس سیٹوں والے پرویز الٰہی کو ایک سو تراسی سیٹوں والی پارٹی پر حاوی کر دیا ہے۔ اپنی نظریاتی پوزیشن سے انحراف کا کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ) ن( کو بھی تنقید کا سامنا ہے کہ وہ اپنی پوری پارٹی چھوڑ کر اقتدار کو صرف ایک گھر میں محدود کرنے پر کیوں بضد ہے۔