پولیو فری پاکستان کا خواب کب پورا ہو گا؟
16 جون 2024پاکستان میں پولیو کا شکار ہو کر زندگی بھر اس کے تکلیف دہ اثرات کا سامنا کرنے والے افراد اپنے ساتھ کیسے کیسے حقائق لیے ہوئے ہوتے ہیں، اس کی ایک مثال ریڈیو پاکستان کی چالیس سالہ سینیئر پروگرام پروڈیوسر ریحانہ خان بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا، ''میں صرف ایک سال کی تھی جب مجھ پر پولیو وائرس کا حملہ ہوا۔ تب چھان بین سے پتہ چلا تھا کہ پولیو کی جو ویکسین مجھے دی گئی تھی، اس کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ اسی لیے تب ہمارے محلے میں کئی دیگر بچوں کو بھی پولیو ہو گیا تھا۔ میرے اہل خانہ کے مطابق وائرس کا حملہ اتنا شدید تھا کہ تب میں کچھ بول یا بڑبڑا بھی نہیں سکتی تھی۔ پھر کافی عرصہ علاج کے بعد میری حالت خاصی بہتر ہوتی گئی۔''
ریحانہ خان نے اپنا ماضی یاد کرتے ہوئے بتایا،''میں اپنے باقی بہن بھائیوں کو اسکول جاتا دیکھتی تھی تو میرا دل بھی چاہتا تھا کہ میں بھی تعلیم حاصل کروں۔ پھر میرا اسکول میں داخلہ ہوا، تو ایسے کہ اسکول میں میری حاضری تو لگتی تھی لیکن میں گھر پر ہی پڑھتی تھی۔ سالانہ امتحان میں البتہ اسکول جا کر ہی دیتی تھی۔ یوں میں نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تو بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں یونیورسٹی میں ٹاپ بھی کر لیا۔ اس کے بعد میں نے اپنے جیسے متاثرہ انسانوں کی آواز بننے کے لیے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کر لی۔''
پاکستان میں انسداد پولیو کی کسی بھی مہم کے دوران بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے والے کارکنوں کو ان کی سلامتی سے متعلق کیسے کیسے خطرات لاحق رہتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پولیو کی روک تھام کی بہت سی مہموں کے دوران آج تک پاکستان میں تقریباﹰ دو سو طبی کارکن یا ان کے محافظ پولیس اہلکار مسلح حملوں میں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ ان ہلاک شدگان میں سے ستر خواتین تھیں۔
پاکستان کو کئی برسوں سے پولیو کے مکمل خاتمے کی منزل کے حصول میں کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ خاص طور سے ایسے پاکستانی علاقوں میں جہاں مسلح تنازعات، بچوں کو ویکسین پلوانے میں ہچکچاہٹ، رسد میں مشکلات اور پولیو ٹیموں اور ان کے محافظ سکیورٹی اہلکاروں پر خونریز حملوں کی صورت میں ویکسینیشن مہموں میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔
ریحانہ خان نے زور دے کر کہا کہ تمام والدین کو اپنے بچوں کو پولیو ویکسین ضرور پلوانا چاہیے اور حکومت سے تعاون بھی کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا سکیں۔
اسلام آباد کے علاقے بنی گالا کے رہائشی اور تعمیراتی شعبے سے منسلک انچاس سالہ حامد عزیز نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ''میں صرف دو سال کا تھا، جب پولیو وائرس کے حملے کا شکار ہوا۔ پولیو وائرس کے حملے سے میرا آدھا جسم مفلوج ہو گیا تھا۔ برسوں کے علاج کا نتیجہ یہ کہ میرے جسم کے متاثرہ نصف حصے میں بھی حرکت تو پیدا ہو گئی لیکن آج بھی میری ایک ٹانگ کمزور اور دوسری سے قدرے چھوٹی ہے۔ مجھے برسوں تک بہت وزنی اور خاص طرح کے جوتے پہننا پڑتے تھے۔ میری متاثرہ ٹانگ کے کئی آپریشن بھی ہوئے اور شکر ہے کہ اب میں ایک سپیشل سرجری کے بعد خصوصی جوتے پہنے بغیر ہی سیدھا چل سکتا ہوں۔''
حامد عزیز نے ذاتی طور پر اپنی بیماری سے کیا سبق سیکھا، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ''میری زندگی خاصی مشکل رہی ہے۔ لیکن میرے والدین نے، جو اب زندہ نہیں، میری پرورش اتنے پیار سے کی کہ مجھے کبھی کسی محرومی کا احساس نہ ہونے دیا۔ میں نے اپنی اس بیماری سے سبق یہ سیکھا ہے کہ آج میرے چار بچے ہیں، مگر میں انہیں پولیو ویکسین پلوانا کبھی نہیں بھولا۔''
پاکستان میں پولیو کے متاثرین میں پیدا ہونے والی جسمانی معذوری کو عملی سطح پر کوئی معذوری سمجھا بھی جاتا ہے کہ نہیں، اس سوال کا جواب ڈی ڈبلیو نے اسی شعبے سے منسلک عابیہ اکرم سے جاننے کی کوشش کی۔ عابیہ اکرم گزشتہ بیس برسوں سے ڈس ایبیلیٹی سیکٹر میں کام کر رہی ہیں اور نیشنل فورم آف ویمن وِد ڈس ایبیلیٹی کی سی ای او بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈس ایبیلیٹی رائٹس کو بھی بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جانا لازمی ہے۔
عابیہ اکرم نے پاکستان میں پولیو کی نہ ختم ہونے والی بیماری کے بارے میں کہا کہ اس مرض کے مکمل خاتمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ آگہی کا فقدان ہے۔ پولیو ویکسین سے منسوب غلط فہمیوں اور من گھڑت دعوؤں کے باعث بہت سے شہری اپنے بچوں کو یہ حفاظتی قطرے نہیں پلواتے۔ ان کے بقول انسداد پولیو مہم کی کامیابی کے لیے بھرپور عوامی اعتماد اور تعاون ناگزیر ہیں۔
انہوں نے کہا، ''درحقیقت عام لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ معذوری ہوتی کیا ہے؟ جب تک سماجی سطح پر یہ بات سمجھی ہی نہیں جائے گی، تب تک ایسا ہونا بھی بہت مشکل ہے کہ معذور انسانوں کے خصوصی حقوق بھی ان کو ویسے ہی دیے جائیں جیسے باقی تمام انسانوں کو ان کے جملہ بنیادی حقوق۔ اس شعبے میں جو غیر سرکاری تنظیمیں یا فلاحی ادارے کام کر بھی رہے ہیں، انہیں بھی متاثرین اور غیر متاثرین دونوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، ہر کسی کو شمولیت کا موقع دینا ہو گا، تاکہ معاشرے میں مؤثر اجتماعی تبدیلی کو یقینی بنایا جا سکے۔''
یہ صورت حال صحت عامہ کے تحفظ کے لیے ملکی اور بین الاقوامی اقدامات کو بھی متاثرکرتی ہے۔ اس لیے کہ پولیو کے نئے کیسز کا سامنے آنا اس بات کی یاد دہانی بھی کراتا ہے کہ اس مرض کے قطعی خاتمے کی کوششوں میں مسلسل پختہ عزم اور کافی وسائل دونوں لازمی ہیں۔ پولیو کے خلاف پاکستان کی طویل جدوجہد کا نتیجہ یہ ہے کہ اس بیماری کے نئے مریضوں کی تعداد تو اب بہت کم ہو چکی ہے مگر اسے تاحال صفر تک نہیں لایا جا سکا۔