پولیو کے حوالے سے سیمپلنگ: کیا خاتمے کی امید کی جائے
10 مئی 2021حکومتی اور بین الاقوامی اداروں سے وابستہ ماہرین نے اس سال جنوری سے پانچ مئی تک دو سو تیس مقامات سے سیوریج کے پانی کو پولیو وائرس کی موجودگی کے لئے ٹیسٹ کیا، جس میں سے چھپن میں یہ وائرس موجود تھا جو تقریبا چوبیس فیصد ہے۔ جب کہ گزشتہ برس کے اسی دورانیے میں یہ شرح ترپن فیصد تھی، سن 2019 میں اسی دوارنیے کے لئے یہ شرح سینتالیس فیصد تھی۔
پاکستان اور تحقیق کے خلاف نہ ختم ہونے والے سازشی نظریات
ڈبلیو پی وی وائرس اس ہفتے ماحولیاتی سیمپل میں نہیں پایا گیا۔
پولیو کیسیز
رواں برس اب تک صرف ایک پولیو کیس قلعہ عبداللہ سے رپورٹ ہوا ہے جب کہ گزشتہ برس اسی دورانیے (جنوری سے مئی) چوبیس اضلاع سے پچاس کیسیز رپورٹ ہوئے تھے۔ مجموعی طور پر سن 2020 میں انتالیس اضلاع سے چوراسی کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ سن 2019 میں تینتالیس اضلاع سے 147 کیسیز رپورٹ ہوئے تھے۔
مہم کی کامیابی ہے لیکن احتیاط ضروری
لاہورسے تعلق رکھنے والی طبی ماہر ڈاکٹر اجالا نیر کا کہنا ہے کہ سن 2010 سے حکومت اور مختلف بین الاقوامی تنظیمیں اس طرح کی سیمپلنگ کر رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "سیمپل زیادہ تر مثبت آ رہے ہیں کبھی کبھی منفی آتے ہیں اور کبھی ملا جلا معاملہ ہوتا ہے۔ بڑے شہر جیسے کہ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں اس طرح کے مثبت کیسیز زیادہ آئے تھے۔ لیکن یہ پہلی بار ہے کہ لاہور میں کافی عرصے کے بعد منفی نتیجہ آیا ہے اس کے علاوہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی یہ نسبتا کم مثبت ہوئے ہیں۔ تو یقینی طور پر اس سے پولیو کے خلاف لڑائی میں آسانی ہوگی۔ تاہم دوسرے عوامل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
دنیا سے پولیو کے خاتمے کی راہ میں پاکستان رکاوٹ
احتیاط ضروری ہے
ڈاکٹر اجالا کے بقول اس طرح کے سیمپل ہر مہینے لیے جا رہے تھے۔ "حکومت اور اس کے مختلف ادارے اور بین الاقوامی تنظیمیں مل کر اس طرح کے سیمپل پانی کے کین میں جمع کرتے ہیں اور پھر انہیں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ بھیجا جاتا ہے اور اس کو وہاں پر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔‘‘
افریقہ بھی پاکستان پر بازی لے گیا
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیو کا وائرس انسانی فضلہ یا انسانی اخراج کے ذریعے سوریج واٹر میں ملتا ہے۔ اس لئے ابھی بھی جن بچوں کو پولیو کے ڈراپ نہیں لگے ہیں یا جو امیونائزڈ نہیں اور اگر ان میں یہ وائرس ہے تو ان کے فضلے سے اس کا پھیلاؤ ہو سکتا ہے، تو ابھی بھی بہت احتیاط کی ضروت ہے۔‘‘
امید افزا
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان سے وابستہ طبی ماہر ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ "پاکستان پولیو کی مہم پر اربوں روپے خرچ کر رہا ہے اور اتنے سارے مقامات سے ایسی اطلاع کے وہاں پر پولیو کا وائرس نہیں ہے ملک کے لیے بہت اچھی خبر ہے۔ اس سے پولیو کو ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔‘‘
چیلنجز اب بھی ہیں
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور کے صدر ڈاکٹر عارف نظامی کا کہنا ہے کہ پولیو کے حوالے سے اب بھی چیلنجیز ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں تمام ویکسینوں کے خلاف ایک خطرناک پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جس کی بنیاد جہالت پر ہوتی ہے۔ پولیو کے خلاف بھی ایک ایسا ہی پروپیگنڈا ہے جس سے نمٹنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ امن و امان اور عسکریت پسندی کا بھی مسئلہ ہے، جو دوبارہ سر اٹھارہی ہے۔‘‘