پوٹن کا مشرقی یوکرائن میں روسی فوج بھیجنے کا حکم
22 فروری 2022روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے وزارت دفاع کو مشرقی یوکرائن کے دو صوبوں ڈونیسک اور لوہانسک میں فوج بھیجنے کا حکم دیا ہے، جنہیں روس نے پیر کے روز آزاد علاقہ کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کریملن نے کہا کہ پوٹن نے روسی فوج کو مشرقی یوکرائن میں "امن برقرار"رکھنے کا حکم دیا ہے۔ صدارتی حکم نامے میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ فوج کی تعیناتی کب شروع ہوگی۔ تاہم روس کے اس قدم نے کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے اور مغربی رہنماوں نے صدر پوٹن کے فیصلے کی نکتہ چینی کی ہے۔
ڈونیسک اور لوہانسک کی آزادی
صدر پوٹن نے پیر کے روز ایک حکم نامے پر دستخط کیے جس میں کہا گیا ہے کہ روس ان دونوں علاقوں، ڈونیسک عوامی جمہوریہ (ڈ ی پی آر) اور لوہانسک عوامی جمہوریہ(ایل پی آر) کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔
ڈونیسک اور لوہانسک مشرقی یوکرائن کے صوبے ہیں۔ روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند ان پر اپنا دعوی کرتے ہیں حالانکہ ان کے صرف کچھ علاقوں پر ہی علیحدگی پسندوں کا قبضہ ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت دونوں صوبے پوری طرح یوکرائن کے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا روسی فوج صرف ان علاقوں میں جائیں گی جہاں علیحدگی پسندوں کا کنٹرول ہے یا وہ پورے صوبے کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے آگے بڑھیں گی۔
یوکرائن خوف زدہ نہیں،زیلینسکی
روس کے فیصلے سے پیدا شدہ صورت حال پرعالمی رہنماوں کے ساتھ فوری صلاح و مشورہ کے بعد یوکرائن کے صدر ولادومیر زیلینسکی نے قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مغرب سے " واضح حمایت "کا مطالبہ کرتے ہیں۔
زیلینسکی نے کہا کہ انہیں کسی چیز سے یا کسی کا خوف نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوکرائن کی سرحدیں قائم ہیں اور قائم رہیں گی اور روس کا اقدام یوکرائن کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔
یوکرائنی صدر نے کہا کہ ماسکو نے سن 2014سے ہی ڈونباس میں موجود روسی فوج کو جواز بخشنے کی کوشش کی ہے۔" روس نے امن کو نقصان پہنچایا ہے لیکن ہم اپنی زمین نہیں دیں گے۔" انہوں نے مزید کہا کہ یوکرائن موجودہ بحران کے سیاسی اور سفارتی حل کی حمایت کرتا ہے۔
عالمی رہنماوں کی جانب سے نکتہ چینی
امریکا نے یوکرائن کے دو صوبوں کو آزاد تسلیم کرنے کے روس کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرائن کے صدر زیلینسکی سے فون پر بات چیت اور روس کے فیصلے کی مذمت کی۔ خیال رہے کہ ایک روز قبل ہی بائیڈن اور پوٹن نے ملاقات کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
سمجھا جاتا ہے کہ بائیڈن جلد ہی ایک حکم جاری کریں گے جس میں دونوں نئی "آزاد"ریاستوں کے ساتھ امریکی سرمایہ کاری، تجارت اور مالی امداد پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ یہ روس کے خلاف براہ راست پابندی عائد کرنے سے قبل کی کارروائی ہوگی۔
وائٹ ہاوس نے بتایا کہ بائیڈن نے جرمنی کے چانسلر اولاف شولس اور فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں سے بھی بات چیت کی ہے تاکہ کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت منگل کے روز ایک میٹنگ میں روس کے خلاف برطانوی اقدام کا فیصلہ جائے گا۔
منسک معاہدے کی خلاف ورزی
یورپی رہنماوں نے بھی روس کے اقدام کی مذمت کی ہے۔ یورپی کمیشن کی چیئرمین ارزولا فان ڈیئر لائن اور یورپی کونسل کے چیئرمین چارلس مشیل نے اسے بین الاقوامی قوانین اور منسک معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔
دونوں رہنماوں نے اس" غیر قانونی عمل" میں شامل فریقین کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا۔
جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئر بوک نے روس کے اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے خودساختہ جمہوریتوں کو تسلیم کیا جانا تمام سفارتی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ انہوں نے کہا،" نارمنڈی فارمیٹ اور یورپ میں سلامتی اورتعاون کی تنظیم(او ایس سی ای) کے تحت برسوں کی کوششوں کو جان بوجھ کر برباد کردیا گیا اور یہ فہم سے بالاترہے۔"
نیٹو کے سربراہ جینس اسٹولٹنس برگ کا کہنا تھا کہ اس اقدام نے تنازع کو حل کرنے کے لیے کی گئی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ یہ منسک معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ "میں ڈونیسک / لوہانسک کو تسلیم کرنے کی مذمت کرتا ہوں اور یوکرائن کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرتا ہوں۔"
سلامتی کونسل کی میٹنگ
مشرقی یوکرائن کے دو ریاستوں کو آزاد تسلیم کرنے کے روس کے فیصلے سے پیدا صورت حال پر غور و خوض کے لیے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی آج منگل کے روز میٹنگ ہورہی ہے۔
اس دوران روس نے علیحدگی پسند علاقوں کو اس کے بقول یوکرائنی جارحیت سے بچانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تنازع کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے سفیر ویسلی نیبزیا نے کہا،"ہم اب بھی سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے سفارت کاری کے لیے تیار ہیں تاہم ہم ڈونباس میں خونریزی نہیں ہونے دیں گے۔"
چین نے تمام فریقین سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
ج ا/ ب ج (اے پی، اے ایف پی،روئٹرز، ڈی پی اے)