پوٹن کے مد مقابل صدارتی امیدوار ایک خاتون صحافی
21 دسمبر 2023ولادیمیر پوٹن کی جانب سے اگلے برس مئی کے وسط میں مجوزہ روسی صدارتی انتخابات میں شرکت کا اعلان کیا گیا ہے۔ سن 2000 سے روسی اقتدار پر براجمان پوٹن کا یہ اعلان سیاسی حلقوں میں ایک طرح سے متوقع معاملہ ہی تھا۔ تاہم ان کے مقابلے میں 40 سالہ ٹی وی اینکر ایکاتیرینا رنتسووا نے میدان میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔
عالمی نظام پر اثرات مرتب کرنے والےآئندہ برس کے پانچ انتخابات
روسی صدر پوٹن کی میراتھن پریس کانفرنس
دنتسووا کا تعلق فقط ساٹھ ہزار آبادی والے قصبے ریسہیف سے ہے، جو ماسکو کے مغرب میں واقع ہے۔
تین بچوں کی ماں دنتسووا کا کہنا ہے، ''اس وقت روس کی صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ شہریوں کی نمائندگی کرنے والے ایسے افراد جو جمہوری نکتہ ہائے نگاہ رکھتے ہیں وہ یا تو جیل میں ہیں یا ان پر پابندیاں ہیں یا وہ جبر کا سامنا کر رہے ہیں اور یا وہ جلاوطنی میں ہیں۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورت حال میں وہ ایک حقیقی متبادل ہو سکتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا،''ایک خاتون کو صدر کیوں نہیں ہونا چاہیے جو نرمی، رحم دلی اور احساس کی حامل ہوں؟‘‘
کریملن کی کٹھ پتلی یا حقیقی امیدوار؟
باقاعدہ صدارتی امیدوار تک پہنچنا ابھی ایک طویل عمل ہے۔حکمران قوم پرست جماعت یونائیڈ رشیا کی جانب سے پوٹن کو صدارتی امیدوار نامزد کیا جا چکا ہے، مگر دنتسووا کے پاس کسی جماعت کی جانب سے نامزدگی نہیں۔ باقاعدہ طور پر صدارتی امیدوار بننے کے لیے انہیں اکتیس جنوری تک اپنے حامیوں سے تین لاکھ دستخط درکار ہوں گے۔ ایک علاقائی سیاست دان کے طور پر خدمات انجام دینے والی ایک خاتون کے لیے یہ ٹاسک کوئی آسان نہیں۔
دنتسووا نے جوں ہی صدارتی امیدوار بننے کے لیے منصوبے کااعلان کیا ان سے یوکرین میں روس کے 'خصوصی عسکری آپریشن‘ کی بابت پوچھا گیا، جس کے جواب میں دنتسووا نے امن کی حمایت کی تاہم یوکرین میں جنگ کا ذکر نہیں کیا۔ وہ بیان دیتے ہوئے انتہائی محتاط رہتی ہیں کیوں روسی قانون کے مطابق 'روسی فوج کے خلاف‘ کوئی بھی بیان غیرقانونی عمل ہے اور اس کے نتیجے میں کسی شخص کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔
اب تک دنتسووا کو کوئی برے نتائج کا سامنا نہیں ہے اور اسی لیے کئی افراد ان پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ناقدین کو شک ہے کہ وہ اصل میں ماسکو حکومت ہی کی جانب سے میدان میں اتاری گئی ہیں تاکہ نام نہاد مدمقابل کے ذریعے وہ پوٹن کی صدارتی مہم کا راستہ صاف کریں اور پوٹن کو کسی حقیقی مدمقابل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تاہم عباس غلیموف ایسی تنقید کو رد کرتے ہیں۔ غلیموف سن 2010 تک پوٹن کی تقریر لکھا کرتے تھے لیکن بعد میں وہ پوٹن کے مخالف ہو گئے اور اب وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور روسی امور پر تبصرہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''دنتسووا کی شہرت اچھی ہے اور وہ ایک پرعزم اور اچھی خیالات کی مالک ہیں۔ وہ ایسی انسان ہیں جو موقع پرستانہ سیاست کی بجائے اپنے خیالات کے لیے لڑائی کرتا ہے۔‘‘
درخواست گزار کے لیے مشکل آغاز
صدارتی دوڑ میں اترنے کے اعلان کے ساتھ ہی اس سیاست دان کو مشکلات کا سامنا ہے، جس میں سب سے پہلے تو انہوں نے سوشل میڈیا پر مہم میں لوگوں سے مالی معاونت کی درخواست کی تاہم ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ان کے بینک نے ان کے اکاؤنٹ میں پیسوں کی آمد کو بلاک کر دیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ سترہ دسمبر کو جب انہوں نے صدارتی امیدوار بننے کے اعلان کیا تو اس وقت فقط ان کے ساتھ ایک سو حامی ہی اس تقریب میں نہیں پہنچے بلکہ مقامی پولیس بھی آن پہنچی۔ وہ ٹیلی گرام پر لکھتی ہے، ''اچانک وہاں بجلی چلی گئی۔ہم نے فوری طور پر جنریٹرز کے ذریعے ایمرجنسی پاور کا سہارا لیا، ایسے میں تقریب کے میزبانی نے دنتسووا کے ہاتھ سے مائیک لے کر لوگوں سے کہا کہ وہ سیاسی سوالات سے اجتناب برتیں۔
اجازت یا پابندی، فیصلہ کریملن کا
عباس غلیموف کے مطابق بلآخر کریملن ہی فیصلہ کرے گا کہ دنتسووا کا صدارتی دوڑ میں رہنے دیا جائے اور اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں یا انہیں نظرانداز کر دیا جائے۔
غلیموف کے مطابق کریملن اس پوری صورت حال کو دو مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ایک تو اگر دنتسووا اگر مطلوبہ دستخط حاصل کرنے میں ناکام رہیں تو پوٹن اسے اپنی فتح قرار دیں گے اور یوکرین کے خلاف اپنی جنگ کو عوامی مقبولیت کی سند گردانیں گے۔ یعنی وہ یہ پروپیگنڈا کریں گے کہ روسی عوام جنگ مخالف امیدوار کے مقابلے میں انہیں زیادہ پسند کرتے ہیں۔
غلیموف کے مطابق اگر کریملن نے دیکھا کہ دنتسووا کو غیرمعمولی عوامی حمایت حاصل ہو گئی ہے، تو انہیں صدارتی دوڑ میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ غلیموف کے مطابق اگر یوکرین کے ساتھ جنگ میں حالات بگڑتے ہیں تو بعید نہیں کہ دنتسووا کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے۔
دوسری جانب ایکاتیرینا دنتسووا بھی جانتی ہیں کہ صدر پوٹن کے مخالف کھڑے ہونا خطرے سے خالی نہیں۔ انہیں پوٹن کے جمہوری ناقدین ایلیکسی ناولینی، ایلیا یاشین اور ولادیمیر کارا مرسیٰ کی طویل قید کا اچھی طرح علم ہے۔
ع ت، ش ر (جینیفر پاہلکے)