’پہلے وزارت بند کرو‘، مانع حمل اشتہارات پر پابندی میں ترمیم
29 مئی 2016یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا، جب ستائیس مئی کو پیمرا کی جانب سے ملک کے تمام نجی نشریاتی اداروں کو یہ حکم جاری کیا گیا کہ فیملی پلاننگ کے لیے مانع حمل مصنوعات کی ترویج اور ان کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنے والے تمام اشتہارات مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیے گئے ہیں۔ لیکن پھر ایک ہی روز بعد ہفتہ اٹھائیس مئی کی رات پیمرا نے اپنے اس متنازعہ حکم نامے پر سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید تنقید کے بعد اس میں واضح ترمیم کرتے ہوئے ایک نیا حکم نامہ جاری کر دیا۔
ترمیم شدہ حکم نامے کے مطابق پیمرا نے اب تمام نجی ٹیلی وژن چینلز اور ریڈیو اسٹیشنوں کو اس بارے میں اتھارٹی کی کسی حتمی پالیسی کی تشکیل تک فیملی پلاننگ اور مانع حمل مصنوعات کی تشہیر کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اب ایسے اشتہارات البتہ رات گئے گیارہ بجے کے بعد یعنی پرائم ٹائم ختم ہونے کے بعد نشر کیے جا سکیں گے۔
پیمرا کے مطابق اس ادارے کے پہلے اور پھر بعد میں ترمیمی حکم ناموں کا جواز اسے ملنے والی وہ شکایات تھیں، جن میں ٹی وی نشریات دیکھنے والے والدین نے کہا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے ایسے اشتہارات کے بارے میں تجسس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سوالات کا سامنا کرتے ہوئے پریشانی کا شکار تھے۔
پیمرا کے ترمیمی حکم نامے کے بعد اسلام آباد میں قائم ایک فیملی پلاننگ مرکز کی سربراہ روبینہ اختر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں اس بحث سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر میڈیا ہی اس مہم میں ساتھ نہیں ہو گا، تو پورے ملک کے غریب عوام تک آگاہی کی اس مہم کو کیسے آگے بڑھایا جا سکے گا؟ روبینہ اختر نے کہا، ’’دور دراز کے علاقوں میں ٹی وی پر چلنے والے یہی اشتہارات تو امید کی ایک کرن ہیں، ورنہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کا یہ طوفان ہم سب کو کھا جائے گا۔ ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ یہ اشتہارات ہمارے مفاد میں ہیں۔‘‘
اسی بارے میں ملبوسات تیار کرنے والا ایک نجی صنعتی یونٹ چلانے والی سائرہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے چھ بچے ہیں اور ان کو اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں خود مانع حمل ذرائع اور مصنوعات کا علم بہت تاخیر سے ہوا ورنہ آج ان کے اپنے بھی صرف دو ہی بچے ہوتے اور ان کا گھرانہ کافی زیادہ خوشحال ہوتا۔
سائرہ خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میں اپنے بچوں کو خود بتاتی ہوں کہ کم بچے پیدا کرنا کتنا فائدہ مند ہے۔ ماں اور بچے کی صحت کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ میں اپیل کرتی ہوں حکومت اور سول سوسائٹی سے کہ ان اشتہارات پر پابندی لگانے کے بجائے ملک میں آگہی کی مہم چلائی جائے اور اس کے لیے اب تک کے مقابلے میں زیادہ بجٹ مختص کیا جائے۔‘‘
اسی موضوع پر اسلام آباد میں مختلف شہریوں کے گھروں پر کام کرنے والی زبیدہ بی بی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میرے آٹھ بچے ہیں۔ شوہر نشہ کرتا ہے۔ میں بیمار رہتی ہوں۔ ماں باپ کچھ سکھائے پڑھائے بغیر چھوٹی عمر میں شادیاں کر دیتے ہیں۔ میری مالکن نے مجھے فیملی پلاننگ کا بتایا تھا۔ اگر پہلے کوئی بتانے یا سمجھانے والا ہوتا تو میں کبھی اتنے بچے پیدا نہ کرتی۔ اب اس مہنگائی کے دور میں ہم اکثر بھوکے سوتے ہیں۔ مجھے تو فیملی پلاننگ کے ان اشتہارات میں عوامی فائدے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘
پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر قاضی انور نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’پیمرا کے مینڈیٹ میں آئین کی پاسداری پہلی شق ہے۔ اگر کوئی قانون ایسا ہے، جو پیمرا پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ ایسا کرے، تب تو ٹھیک ہے۔ دوسری صورت میں پیمرا کا کوئی کام نہیں کہ وہ ایسے اشتہارات پر پابندی لگائے۔‘‘
قاضی انور نے مزید کہا، ’’اگر تصاویر دکھائی جائیں، جن سے بچوں پر منفی اثر پڑے، جیسے کسی حادثے کے بعد یا کسی دہشت گردانہ کاروائی کے بعد مسخ شدہ لاشیں وغیرہ، تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن ان اشتہارات پر پابندی پیمرا کا کام نہیں ہے۔ پیمرا ماتحت ہے قانون کے، قانون پیمرا کے ماتحت نہیں ہے۔ پیمرا کا کام یہ ہے کہ وہ قانون اور آئین کے مطابق کام کرے۔‘‘
پاکستان میں میڈیا سے متعلق قوانین کے ماہر محمد آفتاب عالم نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اصولی طور پر پیمرا کا کام نشریاتی مواد کی ریگولیشن نہیں ہے۔ روزمرہ بنیادوں پر کیا نشر ہونا چاہیے اور کیا نہیں، اس میں پیمرا کا کوئی کام نہیں۔ نہ ہی اس کو اصولی طور پر ایسا کرنا چاہیے کیونکہ اس کا فائدے کے بجائے نقصان ہو گا، جیسا اس واقعے میں ہوا۔ پیمرا کو اپنا حکم ایک ہی دن میں واپس لینا پڑ گیا۔
محمد آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پیمرا کا یوں فیملی پلاننگ کے اشتہارات کو روکنا بہت عجیب ہے کیونکہ یہ تو حکومتی پالیسوں کے بھی منافی ہے۔ یا تو پھر بہبود آبادی کی وزارت بھی ختم کر دی جائے اور جو پاپولیشن کنٹرول پروگرام چل رہے ہیں، وہ بھی بند کر دیے جائیں۔ پھر تو ایسے اشتہارات بھی بند کیے جا سکتے تھے لیکن جب باقی سب کچھ چل رہا ہے، تو اشتہارات میں کیا خرابی ہے؟‘‘
آفتاب عالم نے مزید کہا کہ یہ کام البتہ ضرور ہونا چاہیے کہ اشتہارات میں جو زبان استعمال کی جائے، وہ ہماری معاشرتی اقدار کے منافی نہ ہو۔ ’’اس پر تو بات ہو سکتی ہے۔ لیکن سرے سے کوئی اشتہار نشر ہی نہ کیے جائیں، یہ سوچ زمینی حقائق کے منافی ہے۔‘‘
اس تنازعے کے بارے میں ڈی ڈبلیو نے جب اسلام آباد میں پیمرا کے شعبہٴ تعلقات عامہ کے جنرل منیجر طاہر اظہار سے بات کی، تو انہوں نے کہا، ’’ہماری اپنی مجبوری ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ بہت سے والدین کی پُر زور شکایات پر کیا۔ لیکن پھر کئی دیگر والدین، سوشل میڈیا پر احتجاج اور دیگر اداروں کی طرف سے تنقید پر ہم نے فی الحال اس فیصلے میں ترمیم کر دی ہے۔ اب اگر عوامی رائے ہی منقسم ہے اس بارے میں، تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
طاہر اظہار نے بتایا کہ ابھی اس موضوع پر پیمرا کی متعدد نشستوں میں تفصیلی بحث ہو گی اور اس کے بعد ہی اس بارے میں اتھارٹی کا کوئی حتمی فیصلہ سامنے آ سکے گا۔
پیمرا کے پہلے حکم نامے کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور میڈیا اداروں نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب فیملی پلاننگ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے، تو ان پالیسیوں کی ترویج کی معاونت میں میڈیا پر مخصوص اشتہارات کے سلسلے میں پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے؟
اس دوران اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں سب سے بڑا ملک ہے، جہاں آبادی میں دھماکا خیز اضافے کو کم کرنے کے لیے میڈیا کے ذریعے عوامی سطح پر دلائل اور اشتہارات کے بغیر اس بارے میں حکومتی پالیسیوں کی کامیابی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔