1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کارکنوں کی اموات، خیبرپختونخوا میں تین روزہ سوگ

29 نومبر 2024

خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک ہنگامی اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مبینہ اموات کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تاہم وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

https://p.dw.com/p/4nZyt
خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک ہنگامی اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مبینہ اموات کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے
خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک ہنگامی اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مبینہ اموات کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP

خیبر پختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس گزشتہ شب رات نو بجے طلب کیا گیا تھا۔ تقریباً سوا گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والے اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ کی عدم موجودگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ دوسری جانب وزیر قانون نے صوبے بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کے ہنگامی اجلاس کے فیصلے کے مطابق اسلام آباد میں احتجاج کے دوران پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی مبینہ ہلاکتوں پر صوبے بھر میں تین روزہ سوگ منایا جائے گا۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اسپیکر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی کا کہنا تھا، ''24 اور 25 نومبرکو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے مطالبات کے لیے پرامن احتجاج کیا، جو بحیثیت پاکستانی ان کا بنیادی حق ہے لیکن پولیس اور رینجرز نے پارٹی کارکنوں کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا، جس سے کئی کارکن ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔‘‘

خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک ہنگامی اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مبینہ اموات کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے
خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک ہنگامی اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مبینہ اموات کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہےتصویر: Aamir Qureshi/AFP

ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ احتجاج ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے تھا لیکن ایسا کرنے والوں کو کچلا گیا۔‘‘

’اسلام آباد سے واپس جا کر بھی پی ٹی آئی خاموش نہیں بیٹھے گی‘

اہم اجلاس سے وزیر اعلیٰ غائب

توقع تھی کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اس اجلاس میں وہ تمام تفصیلات بتائیں گے، جس کی وجہ سے ''پارٹی سربراہ کی ہدایات کو نظرانداز‘‘ کر کے سنگجانی کی بجائے کارکنوں کو اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچایا گیا اور رات کے وقت اعلیٰ قیادت کیوں غائب ہو گئی تھی؟ لیکن وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اس اجلاس سے غائب رہے، جس سے کئی نئے سوالات نے جنم لیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی افواہیں

خیبر پختونخوا میں گورنر راج  لگانے کی افواہیں بھی گرم ہیں۔ اس تناظر میں معروف قانون دان علی گوہر کا کہنا تھا، ''موجودہ ترامیم کے بعد کسی صوبے میں گورنر راج کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے گا اور ان کی منظوری کے بعد دو ماہ کے لیے کسی صوبے میں گورنر راج لایا جا سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری صورت میں ایسا اُس وقت ہو سکتا ہے، جب صوبائی اسمبلی کی جانب سے قرارداد کی شکل میں گورنر راج کا مطالبہ کیا جائے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک ہنگامی اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مبینہ اموات کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے
خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایک ہنگامی اجلاس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی مبینہ اموات کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

 آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے آج شام اجلاس طلب

اسپیکر اسمبلی نے گزشتہ سب کے ہنگامی اجلاس کو آج جمعے کی شام تک ملتوی کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم ان تمام واقعات کی آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان واقعات کے ویڈیوز موجود ہیں۔ عالمی میڈیا نے ان واقعات کی کوریج کی ہے لیکن پاکستانی میڈیا نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ہمارا پُرامن احتجاج تھا اور وفاقی حکومت کی ایما پر ہمارے کارکنوں پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں۔ آج دیگر  ارکان بھی اس واقعے پر بحث میں حصہ لیں گے۔‘‘

دریں اثنا گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے شروع کر دیے ہیں۔ بظاہر ان رابطوں کا مقصد سیاسی جماعتوں کو صوبائی مسائل کے حل کے لیے آل پارٹی کانفرنس کے لیے مدعو کرنا بتایا جا رہا ہے لیکن سیاسی مبصرین اسے پی ٹی آئی کی جانب سے حالیہ احتجاج اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات

پی ٹی آئی کے پشاور میں منعقدہ اجلاسوں کے حوالے سے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈی چوک میں جانے اور ''عمران خان کی ہدایت کے مطابق سنگجانی میں احتجاجی کیمپ لگانے‘‘ سے روگردانی پر کسی نے بھی بشریٰ بی بی کے اقدامات کا دفاع نہیں کیا۔ ان اجلاسوں میں پارٹی کے بعض سینئر ارکان نے پارٹی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔