پی ٹی آئی کی بلے کے انتخابی نشان سے محرومی، عملی نتیجہ کیا؟
14 جنوری 2024پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے آئندہ قومی انتخابات کے سلسلے میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے عوامی سطح پر مقبول سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو اس کے کرکٹ کے بیٹ یا بلے کے روایتی انتخابی نشان سے محروم کر دینے کا فیصلہ اس جماعت کے لیے بہت بڑا سیاسی اور انتخابی دھچکا ہے۔
نواز شریف کی ’کھلے سیاسی میدان‘ میں انتخابی مہم
اس عدالتی فیصلے کے حامی جہاں اسے انصاف کے تقاضوں کے مطابق کیا گیا فیصلہ قرار دے کر اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں، وہیں پر پی ٹی آئی کے کارکن اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس پر ناخوش بھی ہیں۔
پی ٹی آئی بطور پارٹی الیکشن سے باہر
عدالتی فیصلے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ملکی انتخابی قوانین کے مطابق اپنے لازمی انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی اور یوں اسے بطور پارٹی وہی انتخابی نشان دوبارہ نہیں دیا جا سکتا، جو اس نے گزشتہ متعدد انتخابات میں بار بار استعمال کیا تھا۔
پاکستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک ناصاف اب ایک پارٹی کے طور پر اور بلے کے انتخابی نشان کے ساتھ آٹھ فروری کے قومی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔
پاکستان الیکشن: ’نک دے کوکے‘ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے؟
اس کا عملی طور پر ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کو کوئی ایک متفقہ انتخابی نشان نہ ملنے کی صورت میں اور پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے اب آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن میں حصہ لینا ہو گا اور ان کو تقریباﹰ یقینی طور پر مختلف حلقوں میں مختلف انتخابی نشان ملیں گے۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان بھر میں اب یہ بھی مشکل ہو جائے گا کہ پی ٹی آئی کے ووٹر ملکی انتخابات میں ووٹ دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آسانی سے شناخت کر سکیں، کیونکہ کسی بھی انتخابی حلقے سے جملہ امیدواروں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی بیلٹ پیپر پر اپنی کوئی متفقہ منفرد شناخت نہیں ہو گی۔
سو ملین سے زائد ووٹر
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں ووت دینے کے اہل شہریوں کی مجموعی تعداد 100 ملین سے زائد بنتی ہے۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے بانی رہنما عمران خان کی ذات کا تعلق ہے، تو وہ گزشتہ سال اگست سے جیل میں ہیں اور انہیں اپنے خلاف متعدد مقدمات کا سامنا بھی ہے۔
پاکستان الیکشن کمیشن نے عمران خان کے آئندہ الیکشن کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی بھی گزشتہ ماہ مسترد کر دیے تھے۔
سپریم کورٹ کا سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ
اس کے برعکس حال ہی میں پاکستانی اعلیٰ عدلیہ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ اگلے الیکشن میں امیدوار ہو سکتے ہیں اور اگر ان کی جماعت کو کافی عوامی تائید ملی، تو وہ چوتھی مرتبہ سربراہ حکومت بھی بن سکتے ہیں۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کے اہم رہنما الیکشن سے باہر
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما کے طور پر نواز شریف ماضی میں تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور بعد میں انہیں عمر بھر کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر تقرری کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا گیا تھا۔
نواز شریف کو ماضی میں حکومتی سربراہ کے طور پر تینوں مرتبہ برطرف ہی کیا گیا تھا اور وہ ایک بار بھی اپنے عہدے کی معمول کی قانونی مدت پوری نہیں کر سکے تھے۔
م م / ع ت (ڈی پی اے، اے ایف پی)