پی ٹی آئی کا مارچ جاری،سکیورٹی اہکاروں کی ہلاکت، فوج تعینات
26 نومبر 2024اسلام آباد میں بڑھتے ہوئے سکیورٹی خدشات کے مدنظر وزارت داخلہ نے ملکی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔
یہ اقدام پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے زیر اہتمام احتجاج کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ پرتشدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔
پی ٹی آئی کا قافلہ اسلام آباد میں داخل، کشیدگی میں اضافہ
خیال رہے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی رہائی کا مطالبہ پر زور دینے کے لیے اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنان پر مشتمل قافلہ اب اسلام آباد میں اپنی منزل ڈی چوک کی طرف بڑھ رہا ہے۔
حکام نے سکیورٹی اہلکاروں کو سخت ہدایات جاری کی ہیں، انہیں مشتعل افراد اور شرپسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا اختیار دیا ہے، جس میں انتہائی اقدامات جیسے کہ فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنا شامل ہے۔
پاکستان میں پی ٹی آئی کا احتجاج: رکاوٹیں، گرفتاریاں، جھڑپیں
وزارت داخلہ کا نوٹیفکیشن پاک فوج کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ضروری سمجھے جانے والے کسی بھی علاقے میں کرفیو نافذ کرنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔
شرپسندوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے
سرکاری ریڈیو پاکستان کے مطابق صورتحال اس وقت خراب ہو گئی "جب اسلام آباد میں سری نگر ہائی وے پر احتجاج کے دوران شرپسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں چار رینجرز اہلکار اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔"
مزید برآں، راولپنڈی کے علاقے چونگی نمبر 26 پر مسلح افراد کے ایک گروپ نے سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کردی، جس سے ایک رینجر زخمی ہوگیا جسے بعد میں تشویشناک حالت میں سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کردیا گیا۔
پی ٹی آئی کے بنیادی مطالبات کیا ہیں اور کیا ان کے پورا ہونے کی کوئی توقع ہے؟
جواب میں، سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی سے نمٹنے اور عوامی تحفظ کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
قانونی کارروائی کے لیے شرپسندوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے، اور حکام نے واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی خلل ڈالنے والے یا پرتشدد رویے کا سخت جواب دیا جائے گا۔
وزیراعظم کا ردعمل
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے گاڑی سے کچلے گئے رینجرز اہلکاروں کی موت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کی فوری نشاندہی کر کے انھیں سزا دلوانے کی ہدایت کی ہے۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے "نام نہاد پر امن احتجاج کی آڑ میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں پر حملے قابل مذمت ہیں۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "پولیس اور رینجرز اہلکار شہر میں امن و امان کے نفاذ کے لیے مامور ہیں اور انتشاری ٹولہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دانستہ طور پر نشانہ بنا رہا ہے۔" بیان کے مطابق "یہ پُر امن احتجاج نہیں بلکہ شدّت پسندی ہے۔ پاکستان کسی بھی انتشار اور خوں ریزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔"
'بات چیت جاری ہے'
دریں اثنا پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان سے ملاقات کی۔ بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ عمران خان کی احتجاج کی کال حتمی ہے اور اس کے منسوخ ہونے کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے زور دے کر کہا کہ احتجاج پر پی ٹی آئی کے بانی کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا، تحریک منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھے گی۔
جب بیرسٹر گوہر سے احتجاج کے حوالے سے جاری مذاکرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے صحافیوں کو یقین دلایا کہ مناسب وقت پر اپ ڈیٹس فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے مزید تصدیق کی کہ بات چیت ابھی جاری ہے لیکن مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، اے ایف پی، خبررساں ادارے)