پی ٹی آئی کی ’جیل بھرو تحریک‘، لاہور میں دفعہ 144 نافذ
21 فروری 2023دھرنوں، لانگ مارچوں اور دو اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اب بدھ بائیس فروری کے روز سے ملک گیر جیل بھرو تحریک شروع کر رہی ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ عمران خان کی جماعت اس جیل بھرو تحریک کے ذریعے ملکی سیاسی منظر نامے پر اپنی موجودگی برقرار ر کھنے کے ساتھ ساتھ انتخابات کے انعقاد کے لئے حکومت پر اپنا دباؤ بھی جاری رکھنا چاہتی ہے۔
سیاسی امور کے ایک تجزیہ کار امتیاز عالم کے مطابق اس تحریک کو زیادہ دیر تک جاری رکھنا پاکستان تحریک انصاف کے لئے آسان نہیں ہوگا اور ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ احتجاج کے پہلے مراحل کے برعکس پی ٹی آئی اس تازہ مرحلے میں عام انتخابات کے حوالے سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو سکے گی یا نہیں۔
لاہور سے آغاز
پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنان بڑی تعداد میں لاہور کی جیل روڈ پر واقع اپنی جماعت کے دفترمیں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ وہاں سے مارچ کرتے ہوئے وہ ایک جلوس کی صورت میں چئیرنگ کراس مال روڈ پہنچیں گے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق پنجاب کے سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ، سینیٹر ولید اقبال، اور سابق صوبائی وزیر مراد راس 200 کارکنوں کے ہمرا اپنی گرفتاریاں پیش کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی نے پہلے ہی گرفتاری کے لئے آمادہ پارٹی رہنماؤں، کارکنوں اور رضاکاروں کی فہرستیں بنا رکھی ہیں۔
دفعہ ایک سو چوالیس کا نفاز
جیل بھرو تحریک کے آغاز سے پہلے پنجاب حکومت نے مال روڈ، گلبرگ مین بولیوارڈ کے ساتھ ساتھ پنجاب سول سیکرٹریٹ کے باہر اور اس سے ملحقہ سڑکوں سمیت کئی علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
پنجاب کے محکمہ داخلہ نے لاہور کی ڈپٹی کمشنر کی درخواست پر لاہور میں سات دن کے لئے دھرنوں اور جلوسوں پر پابندی لگا دی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہاحتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو بلا جواز گرفتار کرنا حکومت کے لئے آسان نہ تھا لیکن دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی کے قانونی جواز کے ساتھ اب پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری ممکنہ طور پر آسان ہو گئی ہے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق جیل بھرو تحریک میں کارکن بائیس فروری کو لاہور، تئیس فروری کو پشاور، چوبیس فروری کو راولپنڈی ، پچیس فروری کو ملتان ، چھبیس فروری کو گوجرانوالہ، ستائیس فروری کو سرگودھا، اٹھائیس فروری کو ساہیوال، اور یکم مارچ کو فیصل آباد میں گرفتاریاں دیں گے۔
سرکاری حکمت عملی
ادھر پنجاب حکومت نے منگل اکیس فروری کے روز ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس میں جیل بھرو تحریک سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دی۔ پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق احتجاج میں اکٹھے ہونے والی لوگوں نے اگر قانون شکنی کی تو ان سے سختی سے پیش آیا جائے گا۔
تجزیہ کار امتیاز عالم کے بقول پنجاب حکومت کا خیال ہے کہ لاہور کی جیلوں میں پہلے ہی رش ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ گرفتار شدگان کو میا نوالی یا پھر ڈی جی خان کی جیلوں میں بھجوایا جا سکتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی جیل بھرو تحریکوں میں حکومتی اہلکار احتجاج کرنے والوں کو جیل میں ڈالنے کی بجائے دور دراز کے علاقوں میں چھوڑ آتے تھے جہاں سے انہیں طویل فاصلہ پیدل طے کرکے واپس آنا پڑتا تھا۔تاہم امتیاز عالم کے بقول، ''اب نہیں معلوم کہ حکومت اس احتجاج کو کیسے ڈیل کرتی ہے۔‘‘
پنجاب کے سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ احتجاج نئے انتخابات کے مطالبے کی حمایت کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور لاقانونیت کے خلاف بھی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کے نتیجے میں کارکنوں کے دل سے جیل کا خوف نکلے گا اور احتجاجی تحریک کو نئی قوت ملے گی۔
عمران خان کی سکیورٹی سخت
جیل بھرو تحریک کے موقعے پر زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ایک طرف پی ٹی آئی کے کارکنا ن نے عمران خان کے گھر کو گھیرے میں لے رکھا ہے جبکہ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی یہاں دکھائی دے رہے ہیں۔ عمران خان نے منگل کے روز پارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ ایک اجلاس میں ان سے جیل بھرو تحریک کے حوالے سے مشاورت کی۔
اس مشاورتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کل پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنا ن پاکستان کی تاریخ کے اس منفرد احتجاج میں شریک ہوں گے۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کی سینئر لیڈرشپ بھی احتجاج کے اگلے مرحلے میں گرفتاریوں کے لئے تیار ہے۔
ایک دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئیر (ر) فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ جیل بھرو تحریک کسی حد تک ایک علامتی احتجاج ہے لیکن ان کے بقول اس سے یہ پیغام ضرور جائے گا کہ دھرنوں ، لانگ مارچوں اور استعفوں کے باوجود جو جمہوری مطالبات نہیں مانے گئے اس کے لئے سیاسی کارکن اپنی جمہوری آزادیاں سرنڈر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ان کے بقول پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے ورکروں کا جوش و خروش دیکھ کر لگتا تو یہی ہے کہ جیل بھرو تحریک کامیابی سے چلے گی۔ فاروق حمید کے خیال میں، '' اگر عمران خان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو پھر حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ اس معاملے کا صرف سیاسی حل ہی نکالا جانا چاہئیے۔ ‘‘